(مرفوع) اخبرنا هناد بن السري، قال: حدثنا ابو الاحوص، عن عطاء بن السائب، عن عكرمة، عن ابن عباس، قال: لما حضرت بنت لرسول الله صلى الله عليه وسلم صغيرة , فاخذها رسول الله صلى الله عليه وسلم فضمها إلى صدره، ثم وضع يده عليها فقضت وهي بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم فبكت ام ايمن، فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا ام ايمن اتبكين ورسول الله صلى الله عليه وسلم عندك"، فقالت: ما لي لا ابكي ورسول الله صلى الله عليه وسلم يبكي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إني لست ابكي ولكنها رحمة"، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" المؤمن بخير على كل حال تنزع نفسه من بين جنبيه وهو يحمد الله عز وجل". (مرفوع) أَخْبَرَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: لَمَّا حُضِرَتْ بِنْتٌ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَغِيرَةٌ , فَأَخَذَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَضَمَّهَا إِلَى صَدْرِهِ، ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ عَلَيْهَا فَقَضَتْ وَهِيَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَكَتْ أُمُّ أَيْمَنَ، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا أُمَّ أَيْمَنَ أَتَبْكِينَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَكِ"، فَقَالَتْ: مَا لِي لَا أَبْكِي وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَبْكِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنِّي لَسْتُ أَبْكِي وَلَكِنَّهَا رَحْمَةٌ"، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْمُؤْمِنُ بِخَيْرٍ عَلَى كُلِّ حَالٍ تُنْزَعُ نَفْسُهُ مِنْ بَيْنِ جَنْبَيْهِ وَهُوَ يَحْمَدُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ".
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک چھوٹی بچی کے مرنے کا وقت آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے (اپنی گود میں) لے کر اپنے سینے سے چمٹا لیا، پھر اس پر اپنا ہاتھ رکھا، تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہی مر گئی، ام ایمن رضی اللہ عنہا رونے لگیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”ام ایمن! تم رو رہی ہو جبکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے پاس موجود ہیں؟“ تو انہوں نے کہا: میں کیوں نہ روؤں جبکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم (خود) رو رہے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں رو نہیں رہا ہوں، البتہ یہ اللہ کی رحمت ہے“، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن ہر حال میں اچھا ہے، اس کی دونوں پسلیوں کے بیچ سے اس کی جان نکالی جاتی ہے، اور وہ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرتا رہتا ہے“۔
(موقوف) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، قال: انبانا عبد الرزاق، قال: حدثنا معمر، عن ثابت، عن انس، ان فاطمة بكت على رسول الله صلى الله عليه وسلم حين مات، فقالت:" يا ابتاه من ربه ما ادناه، يا ابتاه إلى جبريل ننعاه، يا ابتاه جنة الفردوس ماواه". (موقوف) أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ فَاطِمَةَ بَكَتْ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ مَاتَ، فَقَالَتْ:" يَا أَبَتَاهُ مِنْ رَبِّهِ مَا أَدْنَاهُ، يَا أَبَتَاهُ إِلَى جِبْرِيلَ نَنْعَاهْ، يَا أَبَتَاهُ جَنَّةُ الْفِرْدَوْسِ مَأْوَاهُ".
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر رونے لگیں، اور کہنے لگیں: ہائے، ابا جان! آپ اپنے رب سے کس قدر قریب ہو گئے، ہائے، ابا جان! مرنے کی خبر ہم جبرائیل علیہ السلام کو دے رہے ہیں، ہائے، ابا جان! آپ کا ٹھکانا جنت الفردوس ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 487)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/المغازي 83 (4462)، سنن ابن ماجہ/الجنائز 65 (1630)، مسند احمد 3/197 (صحیح)»
(مرفوع) اخبرنا عمرو بن يزيد، قال: حدثنا بهز بن اسد، قال: حدثنا شعبة، عن محمد بن المنكدر، عن جابر، ان اباه قتل يوم احد , قال: فجعلت اكشف عن وجهه وابكي والناس ينهوني , ورسول الله صلى الله عليه وسلم لا ينهاني، وجعلت عمتي تبكيه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا تبكيه ما زالت الملائكة تظله باجنحتها حتى رفعتموه". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَزِيدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَهْزُ بْنُ أَسَدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرٍ، أَنَّ أَبَاهُ قُتِلَ يَوْمَ أُحُدٍ , قَالَ: فَجَعَلْتُ أَكْشِفُ عَنْ وَجْهِهِ وَأَبْكِي وَالنَّاسُ يَنْهَوْنِي , وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لا يَنْهَانِي، وَجَعَلَتْ عَمَّتِي تَبْكِيهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تَبْكِيهِ مَا زَالَتِ الْمَلَائِكَةُ تُظِلُّهُ بِأَجْنِحَتِهَا حَتَّى رَفَعْتُمُوهُ".
جابر بن عبداللہ بن حرام رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ان کے والد غزوہ احد کے دن قتل کر دیئے گئے، میں ان کے چہرہ سے کپڑا ہٹانے اور رونے لگا، لوگ مجھے روک رہے تھے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں روک رہے تھے، میری پھوپھی (بھی) ان پر رونے لگیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم ان پر مت روؤ، فرشتے ان پر برابر اپنے پروں سے سایہ کیے رہے یہاں تک کہ تم لوگوں نے اٹھایا“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: ان احادیث سے میت پر رونے کا جواز ثابت ہو رہا ہے، رہیں وہ روایتیں جن میں رونے سے منع کیا گیا ہے تو وہ اس رونے پر محمول کی جائیں گی جس میں بین اور نوحہ ہو۔