كتاب الصيام کتاب: صیام کے احکام و مسائل 3. بَابُ: مَا جَاءَ فِي صِيَامِ يَوْمِ الشَّكِّ باب: شک کے دن کے روزے کا بیان۔
صلہ بن زفر کہتے ہیں کہ ہم شک والے دن میں عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کے پاس تھے ان کے پاس ایک بھنی ہوئی بکری لائی گئی بعض لوگ اس کو دیکھ کر الگ ہو گئے، (کیونکہ وہ روزے سے تھے) عمار رضی اللہ عنہ نے کہا: جس نے ایسے دن میں روزہ رکھا اس نے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصوم 11 (1906)، (تعلیقا) سنن ابی داود/الصوم 10 (2334)، سنن الترمذی/الصوم 3 (686)، سنن النسائی/الصیام 20 (2190)، (تحفة الأشراف: 10354) وقد أخرجہ: سنن الدارمی/الصوم 1 (1724) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: شک والے دن سے مراد ۳۰ شعبان کا دن ہے یعنی بادلوں کی وجہ سے ۲۹ ویں کو چاند نظر نہ آیا ہو تو پتہ نہیں چلتا کہ یہ شعبان کا تیسواں دن ہے یا رمضان کا پہلا دن اسی وجہ سے اسے شک کا دن کہتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند دیکھنے سے ایک روز پہلے روزہ رکھنے سے منع فرمایا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 14339، ومصباح الزجاجة: 599) (صحیح)» (سند میں عبد اللہ بن سعید المقبری ضعیف ہے، لیکن دوسرے طرق سے یہ صحیح ہے، صحیح ابو داود: 2015)
قال الشيخ الألباني: صحيح
معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما منبر پر کہہ رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان سے پہلے منبر پر فر مار ہے تھے: ”روزہ فلاں فلاں دن شروع ہو گا، اور ہم اس سے پہلے سے روزہ رکھنے والے ہیں لہٰذا جس کا جی چاہے پہلے سے روزہ رکھے، اور جس کا جی چا ہے مؤخر کرے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11436، ومصباح الزجاجة: 600) (ضعیف)» (سند میں ھیثم بن حمید ضعیف ہے، نیز (1650) نمبر پر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کے یہ مخالف ہے)
وضاحت: ۱؎: یعنی رمضان کا دن آ جائے تب روزہ شروع کرے، واضح رہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے، مسئلہ کے لیے حدیث نمبر (۱۶۵۰) کا حاشیہ ملاحظہ فرمائیں۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف مع مخالفته لحديث أبي هريرة
|