كتاب الصيام کتاب: صیام کے احکام و مسائل 7. بَابُ: مَا جَاءَ فِي «صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ» باب: چاند دیکھ کر روزہ رکھنے اور چاند دیکھ کر روزہ توڑنے کا بیان۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم چاند دیکھ لو تو روزہ رکھو، اور چاند دیکھ کر ہی روزہ توڑا کرو، اور اگر چاند بادل کی وجہ سے مشتبہ ہو جائے تو تیس دن کی تعداد پوری کرو“ ۱؎۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما چاند نکلنے کے ایک روز پہلے سے ہی روزہ رکھنا شروع کر دیتے تھے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6804)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الصوم 5 (1900)، 11 (1908)، صحیح مسلم/الصوم 2 (1081)، سنن ابی داود/الصوم 4 (2320)، سنن النسائی/الصوم 7 (2122)، موطا امام مالک/الصیام 1 (1) مسند احمد (2/5، 5/5، 13، 63، 145)، سنن الدارمی/الصوم 2 (1726) (صحیح) (ملاحظہ ہو: الإرواء: 4/10 و صحیح أبی داود: 2009)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ روزہ رکھنے اور چھوڑنے میں چاند دیکھنا ضروری ہے محض فلکی حساب کافی نہیں۔ رہا یہ مسئلہ کہ ایک علاقہ کی رویت دوسرے علاقہ والوں کے لیے معتبر ہو گی یا نہیں تو اس مسئلہ میں علماء کا اختلاف ہے، رویت ہلال کا مسئلہ ہمیشہ بحث کا موضوع بنا رہتا ہے، اس لیے اس مسئلہ کی وضاحت ضروری ہے: اگر کسی جگہ چاند نظر آ جائے تو کیا سارے مسلمانوں کے لیے واجب ہے کہ وہ اس رویت کی بنا پر روزہ رکھیں یا روزہ توڑ دیں یا ہر ملک اور علاقہ کے لوگ اپنے ملک کے مطلع کے مطابق چاند دیکھ کر اس کا اعتبار کریں، اور اس کے مطابق عمل کریں۔ (۱) جمہور اہل علم جن میں امام ابوحنیفہ اور امام احمد بھی داخل ہیں کے نزدیک اگر ایک شہر میں چاند نکل آئے تو ہر جگہ کے لوگ اس کے مطابق روزہ رکھیں، اور چھوڑیں، یعنی ایک علاقے کی رویت دوسرے علاقے کے لیے کافی ہو گی، اس لیے کہ حدیث میں وارد «صوموا» اور «أفطروا» کا حکم عام ہے، اس کے مخاطب دنیا کے تمام مسلمان ہیں، ان کے نزدیک رویت ہلال میں مطالع کے اتفاق اور اختلاف کا کوئی اعتبار نہیں۔ (۲) علماء کی ایک جماعت جن میں امام شافعی سرفہرست ہیں کے نزدیک رویت ہلال کے مسئلے میں اختلاف مطالع مؤثر اور معتبر ہے، زیر نظر حدیث میں جو حکم ہے وہ ان لوگوں کے لیے جن کے یہاں ہلال نظر آ گیا ہے، لیکن جہاں چاندنظر ہی نہیں آیا تو ان کے لیے یہ حکم اس وقت مؤثر ہو گا جب چاند نظر آئے جا ئے گا جیسے صوم و صلاۃ کے اوقات میں ہر جگہ کے طلوع اور غروب کا اعتبار ہے، ایسے ہی چاند کی رویت میں بھی اختلاف مطالع مؤثر ہے، اس لیے ایک علاقہ کی رویت دوسرے علاقے کے مسلمانوں کے لئے کافی نہیں، اس حدیث کے مخاطب صرف وہ مسلمان ہیں جنھوں نے چاند دیکھا ہو، اور جن علاقے کے مسلمانوں نے چاند دیکھا ہی نہیں وہ اس کے مخاطب نہیں ہیں، اس لیے ہر علاقے کے لیے اپنی اپنی الگ الگ رویت ہے جس کے مطابق وہ روزہ رکھنے اور عید منانے کا فیصلہ کریں گے۔ شیخ الإسلام ابن تیمیہ کہتے ہیں: اہل علم کا اس مسئلے پر اتفاق ہے کہ مطالع مختلف ہوتے ہیں، اگر مطلع ایک ہو تو روزہ لازمی طور پر رکھنا ہو گا، ورنہ اختلاف مطالع کی صورت میں روزہ رکھنا ضروری نہیں ہو گا، شافعیہ کا صحیح ترین قول نیز حنبلی مذہب کا ایک قول یہی ہے، اس عقلی دلیل کے ساتھ اختلاف مطالع کے مؤثر ہونے کی نقلی دلیل صحیح مسلم میں آئی ہے: کریب کہتے ہیں کہ میں شام آیا اور جمعہ کی رات میں رمضان کا چاند دیکھا آخری مہینہ میں واپس مدینہ آیا تو مجھ سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے پوچھا: تم لوگوں نے شام میں کب چاند دیکھا تو میں نے جواب دیا کہ جمعہ کی رات کو لوگوں نے چاند دیکھا اور روزہ رکھا، ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: ہم لوگوں نے مدینہ میں سنیچر کی رات کو چاند دیکھا ہے، ہم چاند دیکھ کر روزہ توڑیں گے یا تیس دن پورا کریں گے، اس لیے کہ رسول اکرم ﷺ نے ہمیں ایسے ہی حکم دیا ہے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں کہ اہل علم کا عمل اس حدیث پر ہے۔ اس قصے سے یہ بات واضح ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے شام والوں کی رویت کا اعتبار نہیں کیا بلکہ مدینہ والوں کی رویت کو معتبر مانا۔ اس مذہب کے قائلین اختلاف مطالع کو جو کہ ایک حقیقت ہے رویت ہلال کے مسئلہ میں معتبر مانتے ہیں، امت میں اس سلسلے میں شروع سے اختلاف چلا آ رہا ہے، جس کی بنیاد حدیث کے ساتھ ساتھ اختلاف مطالع کو معتبر ماننا بھی ہے۔ کتاب الزلال کے مؤلف فرماتے ہیں: یہ بات یقینی طور پر جان لینی چاہئے صحیح بات جس پر محقق علمائے حدیث و اہل نظر اور فلکیات کے ماہرین کا اتفاق ہے کہ رویتِ ہلال میں دیکھا جائے گا کہ جس جگہ رویت ہوئی ہے، وہاں سے دو ہزار دو سو چھبیس (۲۲۲۶) کلومیٹر کے درمیان کی دوری کا حکم اتحاد مطالع کی وجہ سے روزہ رکھنے اور توڑنے میں یکساں ہو گا، اور اگر اس سے زیادہ مسافت ہو گی تو اس کا اعتبارصحیح نہیں ہو گا، اور ہر علاقے کا حکم اس کے مطلع کے اختلاف کے مطابق ہو گا، چاہے یہ دوری مشرق و مغرب کی ہو یا شمال و جنوب کی اور چاہے یہ ایک ملک میں ہو یا ایک اقلیم میں، یہ شرعی دلائل اور فلکیاتی حساب کے موافق ہے، اور اس سے سارے اشکالات ختم ہو جاتے ہیں «واللہ اعلم» رویت ہلال سے متعلق سعودی عرب کے کبار علماء کے بورڈ کے متفق علیہ فتوے کا خلاصہ درج ذیل ہے: اختلافِ مطالع ضروری طور پر معلوم و مشہور چیز ہے، جس کے بارے میں کوئی اختلاف ہے ہی نہیں، ہاں علماء کے نزدیک اس کے معتبر ماننے اور نہ ماننے کے درمیان اختلاف ہے، اختلافِ مطالع کو رویت ہلال کے سلسلے میں مؤثر و معتبر ماننا اور نہ ماننا ان مسائل میں سے ہے جن میں اجتہاد کی گنجائش ہے، معتبر اہل علم اور اہل دین کے یہاں اس میں اختلاف رہا ہے، اور یہ جائز قسم کا اختلاف ہے، اہل علم کی اس میں دو رائے ہے، ایک گروہ اختلافِ مطالع کو مؤثر مانتا ہے، اور دوسرے گروہ کے یہاں اختلافِ مطالع کا اعتبار نہیں ہے، ہر فریق کا اپنا اپنا استدلال ہے، علماء بورڈ نے اس مسئلے کے مختلف گوشوں پر غور و خوض کر کے اور یہ مان کر کہ یہ مسئلہ چودہ سال سے امت میں موجود ہے، اس رائے کا اظہار کیا کہ ان گزشتہ صدیوں میں ہمیں کسی ایسے زمانے کا علم نہیں ہے جس میں ایک شہر کی رویت کی بنا پر سب لوگوں نے ایک دن ہی عید منائی ہو، اس لیے بورڈ کے ممبران کا فیصلہ یہ ہے کہ یہ مسئلہ جیسے ہے ویسے ہی رہنے دیا جائے، ہر اسلامی ملک کو اس بات کا حق ہے کہ ان دونوں میں سے ان کے علماء وفقہاء جس رائے کے مطابق فتوی دیں اس کے مطابق عمل کیا جائے، رہ گیا چاند کا ثبوت فلکیاتی حساب سے تو علماء بورڈ اسے بالاجماع غیر معتبر مانتا ہے، «واللہ اعلم» ۔ (ملاحظہ ہو: توضیح الأحکام من بلوغ المرام للشیخ عبداللہ بن عبدالرحمن البسام حدیث نمبر:۵۴۱) قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم چاند دیکھو تو روزہ رکھو، اور جب چاند دیکھو تو روزہ توڑ دو، اگر بادل آ جائے تو تیس روزے پورے کرو“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصوم 2 (1081)، (تحفة الأشراف: 13102)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الصوم 11 (1906)، سنن الترمذی/الصوم 2 (684)، سنن النسائی/الصیام 7 (2120)، مسند احمد (2/ 259، 263، 28، 287، 415، 422، 430، 438، 454، 456، 469، 497)، سنن الدارمی/الصوم 2 (1767) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
|