كتاب الصيام کتاب: صیام کے احکام و مسائل 5. بَابُ: مَا جَاءَ فِي النَّهْيِ عَنْ أَنْ يَتَقَدَّمَ رَمَضَانَ بِصَوْمٍ إِلاَّ مَنْ صَامَ صَوْمًا فَوَافَقَهُ باب: رمضان سے ایک روز پہلے روزہ رکھنے کی ممانعت اگر کوئی شخص پہلے سے روزہ رکھتا چلا آیا ہو تو جائز ہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رمضان سے ایک دن یا دو دن پہلے روزہ نہ رکھو، الا یہ کہ کوئی آدمی پہلے سے روزے رکھ رہا ہو تو وہ اسے رکھے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الصوم 31 (2171، 2172)، 38 (2189)، (تحفة الأشراف: 15391)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الصوم 14 (1914)، صحیح مسلم/الصوم 3 (1082)، سنن ابی داود/الصوم 11 (2335)، سنن الترمذی/الصوم 2 (685)، مسند احمد (3/234، 347، 408، 438، 7 7 4، 497، 513)، سنن الدارمی/الصوم 4 (1731) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مثلاً پہلے سے جمعرات یا سوموار (پیر) کے روزے رکھنے کا معمول ہو، اور یہ دن اتفاق سے رمضان سے دو یا ایک دن پہلے آ جائے تو اس کا روزہ رکھے کیونکہ یہ روزہ رمضان کے استقبال کے لیے نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب نصف شعبان ہو جائے، تو روزے نہ رکھو، جب تک کہ رمضان نہ آ جائے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصوم 12 (2337)، سنن الترمذی/الصوم 38 (738)، (تحفة الأشراف: 14051، 14095)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/الصوم 34 (1781) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ بات عام امت کے لئے ہے، نبی اکرم ﷺ کے بارے میں آتا ہے کہ آپ شعبان کے روزوں کو رمضان سے ملا دیا کرتے تھے کیونکہ آپ کو روحانی قوت حاصل تھی اس لئے روزہ آپ کے لئے کمزوری کا سبب نہیں بنتا تھا، لیکن امت کے لئے حکم یہ ہے کہ وہ نصف ثانی میں روزہ نہ رکھیں تاکہ ان کی قوت و توانائی رمضان کے روزوں کے لئے برقرار رہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|