كتاب الصيام کتاب: صیام کے احکام و مسائل 51. بَابُ: مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صِيَامٌ مِنْ نَذْرٍ باب: میت کے نذر والے روزے کے حکم کا بیان۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک عورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی، اور اس نے کہا: اللہ کے رسول! میری بہن کا انتقال ہو گیا، اور اس پہ مسلسل دو ماہ کے روزے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بتاؤ اگر تمہاری بہن پہ قرض ہوتا تو کیا تم اسے ادا کرتیں“؟ اس نے کہا: ہاں، ضرور ادا کرتی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنا زیادہ اہم ہے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصوم 42 (1953)، صحیح مسلم/الصیام 27 (1148)، سنن ابی داود/الأیمان 26 (3310)، سنن الترمذی/الصوم 22 (716)، (تحفة الأشراف: 5612، 5395، 5513، 9852، 5895، 9561، 6385، 6396، 6322)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/224، 227، 258، 362)، سنن الدارمی/الصوم 49 (1809) لکن عندھم: أن أمي ماتت (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک عورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی، اور اس نے کہا: اللہ کے رسول! میری ماں کا انتقال ہو گیا، اور اس پر روزے تھے، کیا میں اس کی طرف سے روزے رکھوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصوم 27 (1149)، سنن ابی داود/الزکاة 31 (1656)، الوصایا 12 (2877)، الإیمان 25 (3309)، سنن الترمذی/ الزکاة 31 (667)، (تحفة الأشراف: 1980)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/351، 361) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: علامہ ابن القیم فرماتے ہیں کہ میت کی طرف سے نذر کا روزہ رکھنا جائز ہے، اور فرض اصلی یعنی رمضان کا جائز نہیں، عبداللہ بن عباس اور ان کے اصحاب اور امام احمد کا یہی قول ہے اور یہ صحیح ہے کیونکہ فرض روزہ مثل نماز کے ہے، اور نماز کوئی دوسرے کی طرف سے نہیں پڑھ سکتا، اور نذر مثل قرض کے ہے تو میت کی طرف سے وارث کا ادا کرنا کافی ہو گا، جیسے اس کی طرف سے قرض ادا کرنا، الروضہ الندیہ میں ہے کہ میت کی طرف سے ولی کا روزہ رکھنا اس وقت کافی ہو گا جب اس نے عذر سے صیام رمضان نہ رکھے ہوں، لیکن اگر بلا عذر کسی نے صیام رمضان نہ رکھے تو اس کی طرف سے ولی کا روزے رکھنا کافی نہ ہو گا جیسے میت کی طرف سے توبہ کرنا، یا اسلام لانا یا نماز ادا کرنا کافی نہیں ہے، اور ظاہر مضمون حدیث کا یہ ہے کہ ولی پر میت کی طرف سے روزہ رکھنا یا کھانا کھلانا واجب ہے خواہ میت نے وصیت کی ہو اس کی یا نہ کی ہو۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|