كتاب الصيام کتاب: صیام کے احکام و مسائل 14. بَابُ: مَا جَاءَ فِي كَفَّارَةِ مَنْ أَفْطَرَ يَوْمًا مِنْ رَمَضَانَ باب: رمضان کا کوئی روزہ چھوڑنے کا کفارہ۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا، اس نے عرض کیا: میں ہلاک ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں کس چیز نے ہلاک کر دیا؟ اس نے کہا: میں نے رمضان میں اپنی بیوی سے صحبت کر لی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم ایک غلام آزاد کرو“، اس نے کہا: میرے پاس غلام آزاد کرنے کی طاقت نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا تو دو مہینے لگاتار روزے رکھو“، اس نے کہا: میں اس کی بھی طاقت نہیں رکھتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ“ اس نے کہا: مجھے اس کی بھی طاقت نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیٹھ جاؤ“ وہ بیٹھ گیا، اسی دوران آپ کے پاس کھجور کا ایک ٹوکرا آ گیا، اس ٹوکرے کو «عرق» کہتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ”جاؤ اسے صدقہ کر دو“، اس نے کہا: اللہ کے رسول! قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، مدینہ کی ان دونوں سیاہ پتھریلی پہاڑیوں کے بیچ کوئی اور گھر والا ہم سے زیادہ محتاج نہیں ہے، یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جاؤ اپنے گھر والوں کو کھلا دو“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصوم 30 (1936)، الہبة 20 (2600)، النفقات 13 (5368)، الأدب 68 (6087)، 95 (6164)، کفارات الأیمان 2 (6709)، 3 (6710)، 4 (6711)، صحیح مسلم/الصوم 14 (1111)، سنن ابی داود/الصوم 37 (2390)، سنن الترمذی/الصوم 28 (724)، (تحفة الأشراف: 12275)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الصیام 9 (28)، مسند احمد (2/208، 241، 273، 281، 516)، سنن الدارمی/الصوم 8 (1757) (صحیح)»
وضاحت:
۱؎: اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ رمضان کا صیام قصداً توڑنے سے ظہار کا سا کفارہ لازم ہے، سبحان اللہ اس شخص کی بھی کیا قسمت تھی کہ روزے کا کفارہ بھی ساقط اور کھجور کا ٹوکرہ مفت ہاتھ آیا، علماء نے کہا ہے کہ یہ اس شخص کے ساتھ خاص تھا اگر دوسرا کوئی رمضان کا روزہ قصداً توڑے تو غلام آزاد کرے، اگر یہ نہ ہو سکے تو تو دو مہینے لگا تار روزے رکھے، اگر یہ نہ ہو سکے تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے،اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو ٹھہرا رہے جب روزے کی طاقت آ جائے یا مال ملے تو کفارہ ادا کرے، بہر حال اپنے بال بچوں کے کھلا دینے سے کفارے کا ادا ہو جانا اس شخص کے ساتھ خاص تھا، «واللہ اعلم»
اس سند سے بھی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے سے ایسے ہی بیان کیا ہے، اس میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی جگہ پر ایک دن کا روزہ رکھ لو“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 13376، ومصباح الزجاجة: 605)، مسند احمد (2/208) (صحیح)»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص رمضان کا ایک روزہ بغیر کسی رخصت کے چھوڑ دے تو اسے پورے سال کے روزے (بھی) کافی نہ ہوں گے“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصوم 38 (2396)، سنن الترمذی/الصوم 27 (723)، (تحفة الأشراف: 14616)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/386، 442، 458)، سنن الدارمی/الصوم 18 (1756) (ضعیف)» (اس کے راوی ابن المطوس لین الحدیث اور والد مطوس مجہول ہیں، ملاحظہ ہو: ضعیف أبی داود: 413)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
|