كتاب الصيام کتاب: صیام کے احکام و مسائل 48. بَابٌ في «الصَّائِمُ لاَ تُرَدُّ دَعَوْتُهُ» باب: روزہ دار کی دعا رد نہ ہونے کا بیان۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین آدمیوں کی دعا رد نہیں کی جاتی: ایک تو عادل امام کی، دوسرے روزہ دار کی یہاں تک کہ روزہ کھولے، تیسرے مظلوم کی، اللہ تعالیٰ اس کی دعا قیامت کے دن بادل سے اوپر اٹھائے گا، اور اس کے لیے آسمان کے دروازے کھول دئیے جائیں گے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ”میری عزت کی قسم! میں تمہاری مدد ضرور کروں گا گرچہ کچھ زمانہ کے بعد ہو“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الدعوات 29 (3598)، (تحفة الأشراف: 15457)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/304، 305، 445، 447) (ضعیف)» (پہلا فقرہ «الإِمَامُ الْعَادِلُ» کے بجائے «المسافر» کے لفظ کے ساتھ صحیح ہے، نیز «الصَّائِمُ حَتَّى يُفْطِرَ، وَدَعْوَةُ الْمَظْلُومِ» کا فقرہ بھی صحیح ہے، تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 596- 1797 ور صحیح ابن خزیمہ: 1901)
وضاحت: ۱؎: مظلوم کی آہ خالی جانے والی نہیں، ظالم اگر چند روز بچا رہے، تو اس سے یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ اللہ تعالی اس سے راضی ہے، بلکہ یہ استدراج اور ڈھیل ہے کہ ایک نہ ایک دن دنیا ہی میں اللہ تعالیٰ اس سے بدلہ لے لے گا، حدیث میں مظلوم کو مطلق رکھا مسلمان کی قید نہیں کی، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کافر پر بھی ظلم ناجائز ہے، کیونکہ سب اللہ کے بندے ہیں، اور کافر اگر مظلوم ہو تو اس کی دعا اثر کرے گی، غرض ظلم سے انسان کو ہمیشہ بچتے رہنا چاہئے، اس کے برابر کوئی گناہ نہیں، اور ظلم کا اطلاق ہر زیادتی اور نقصان پر جو ناحق کسی کے ساتھ کیا جائے، خواہ مال کا نقصان ہو یا عزت کا یا جان کا۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف وصح منه شطره الأول لكن بلفظ المسافر وفي رواية الوالد مكان الإمام
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”روزہ دار کی دعا افطار کے وقت رد نہیں کی جاتی“۔ ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کو سنا کہ جب وہ افطار کرتے تو یہ دعا پڑھتے: «اللهم إني أسألك برحمتك التي وسعت كل شيء أن تغفر لي» ”اے اللہ! میں تیری رحمت کے ذریعہ سوال کرتا ہوں جو ہر چیز کو وسیع ہے کہ مجھے بخش دے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8842، ومصباح الزجاجة: 630) (ضعیف)» (اسحاق بن عبید اللہ ضعیف ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء: 921)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
|