صلہ بن زفر کہتے ہیں کہ ہم شک والے دن میں عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کے پاس تھے ان کے پاس ایک بھنی ہوئی بکری لائی گئی بعض لوگ اس کو دیکھ کر الگ ہو گئے، (کیونکہ وہ روزے سے تھے) عمار رضی اللہ عنہ نے کہا: جس نے ایسے دن میں روزہ رکھا اس نے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: شک والے دن سے مراد ۳۰ شعبان کا دن ہے یعنی بادلوں کی وجہ سے ۲۹ ویں کو چاند نظر نہ آیا ہو تو پتہ نہیں چلتا کہ یہ شعبان کا تیسواں دن ہے یا رمضان کا پہلا دن اسی وجہ سے اسے شک کا دن کہتے ہیں۔
It was narrated that Silah bin Zufar said:
“We were with ‘Ammar on the day concerning which there was some doubt. A (roasted) sheep was brought and some of the people moved away. ‘Ammar said: ‘Whoever is fasting on this day has disobeyed Abu Qasim (ﷺ).’”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن أبي داود (2334) ترمذي (686) نسائي (2190) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 439
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1645
اردو حاشہ: فوائدومسائل:
(1) شک کے دن سے مراد انتیس شعبان کےبعد والا دن ہے۔ جب کہ چاند نظر آنے کی تصدیق نہ ہوئی ہو یہ دن حقیقت میں شعبان کا تیسواں دن ہے۔
(2) بعض لوگ تیس شعبان کو اس لئے روزہ رکھ لیتے ہیں۔ کہ شاید رمضان شروع ہوگیا ہو اور ہمیں معلوم نہ ہوا ہو۔ اب اگر رمضان شروع ہوچکا ہو تو یہ روزہ رمضان کا ہوجائے گا۔ ورنہ نفلی روزہ سہی۔ اس طرح کا شک والا روزہ رکھنا شرعا منع ہے۔
(3) اللہ تعالیٰ نے فرض عبادات کی مقدار اور اوقات کا تعین کردیا ہے۔ نفلی اور فرض عبادات کے اس امیتاز کو ختم کرنا درست نہیں۔
(4) نیکی کا عمل اگر سنت کے خلاف ہو۔ تو وہ نیکی کا عمل ہی نہیں رہتا۔ 5 یہ روایت اکثر محققین کے نزدیک صحیح ہے۔ بعض صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کے روزہ نہ توڑنے کی وجہ یہ ہوسکتی ہے۔ کہ انھوں نے معمول کے مطابق روزہ رکھا ہو جس کی اجازت ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1645