كتاب الصيام کتاب: صیام کے احکام و مسائل 26. بَابُ: مَا جَاءَ فِي فَرْضِ الصَّوْمِ مِنَ اللَّيْلِ وَالْخِيَارِ فِي الصَّوْمِ باب: فرض روزے کی نیت رات میں ضروری ہونے اور نفلی روزے میں اختیار ہونے کا بیان۔
ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس شخص کا روزی نہیں جو رات ہی میں اس کی نیت نہ کر لے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصوم 71 (2454)، سنن الترمذی/الصوم 33 (730)، سنن النسائی/الصیام 39 (2333،)، (تحفة الأشراف: 15802)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الصیام2 (5)، مسند احمد (6/278)، سنن الدارمی/الصوم 10 (1740) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: روزہ دار کے لیے رات میں نیت کرنے کا یہ حکم فرض اور قضا و کفارہ کے روزے کے سلسلہ میں ہے، نفلی صیام کے لئے رات میں نیت ضروری نہیں جیسا کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے جو نیچے آگے رہی ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آتے اور پوچھتے: ”کیا تمہارے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے“؟ ہم کہتے: نہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے: ”میں روزے سے ہوں“، اور اپنے روزے پر قائم رہتے، پھر کوئی چیز بطور ہدیہ آتی تو روزہ توڑ دیتے، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ کبھی روزہ رکھتے، اور کبھی کھول دیتے، میں نے پوچھا: یہ کیسے؟ تو کہا: اس کی مثال ایسی ہے جیسے کہ کوئی صدقہ نکالے پھر کچھ دے اور کچھ رکھ لے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 17578)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الصوم 32 (1154)، سنن ابی داود/الصوم 72 (2455)، سنن الترمذی/الصوم 35 (734)، سنن النسائی/الصوم 39 (2327)، مسند احمد (6/49، 207) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر دعوت ہو یا عمدہ کھانا سامنے آ جائے، یا کوئی دوست کھانے کے لئے اصرار کرے تو نفلی روزہ توڑ ڈالے، یہی نبی کریم ﷺ کی سنت ہے۔ قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
|