كتاب الصيام کتاب: صیام کے احکام و مسائل 18. بَابُ: مَا جَاءَ فِي الْحِجَامَةِ لِلصَّائِمِ باب: روزہ دار کے پچھنا لگوانے کا بیان۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پچھنا لگانے والے، اور لگوانے والے دونوں کا روزہ ٹوٹ گیا“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 12417، ومصباح الزجاجة: 609) (صحیح)» (عبد اللہ بن بشر کا سماع اعمش سے ثابت نہیں ہے، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے)
وضاحت: ۱؎: یہ حدیث تواتر کے درجے کو پہنچی ہوئی ہے، اور اس بارے میں نص ہے کہ پچھنا (سینگی) لگانے اور لگوانے والے دونوں کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے، اکثر فقہائے حدیث جیسے احمد، اسحاق بن راہویہ، ابن خزیمہ اور ابن المنذر کا یہی مذہب ہے، اور اسی کو محققین علماء جیسے شیخ الإسلام ابن تیمیہ اور ابن القیم نے اختیار کیا ہے، اور یہ مذہب صحیح اور قیاس کے موافق ہے، حجامت قے کی طرح ہے، اور جب کوئی عمداً قے کرے تو قے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، لیکن مالک، ابوحنیفہ، شافعی اور جمہور علماء اس کے جواز کے قائل ہیں اور اس حدیث کی تاویل میں ان کے مختلف اقوال ہیں ایک قول یہ ہے کہ «أفطر الحاجم والمحجوم» کا مطلب یہ ہے کہ ان دونوں نے اپنے آپ کو افطار کے لیے پیش کر دیا ہے بلکہ قریب پہنچ گئے ہیں، جسے سینگی لگائی گئی وہ ضعف و کمزوری کی وجہ سے اور سینگی لگانے والا اس لیے کہ اس سے بچنا مشکل ہے کہ جب وہ خون چوس رہا ہو تو خون کا قطرہ حلق میں چلا جائے اور روزہ ٹوٹ جائے اور ایک قول یہ ہے کہ یہ حدیث منسوخ ہے اور ناسخ انس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے جسے دارقطنی نے روایت کیا ہے: «رخص النبي بعد في الحجامة للصائم وكان أنس يحتجم وهو صائم» ۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”پچھنا لگانے والے، اور لگوانے والے دونوں کا روزہ ٹوٹ گیا“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصوم 28 (2367)، (تحفة الأشراف: 2104)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/277، 280، 282، 283)، سنن الدارمی/الصیام 36 (1774) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوقلابہ سے روایت ہے کہ شداد بن اوس رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بقیع میں چل رہے تھے کہ اسی دوران آپ ایک شخص کے پاس سے گزرے جو چاند کی اٹھارہویں رات گزر جانے کے بعد پچھنا لگوا رہا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پچھنا لگانے والے اور لگوانے والے دونوں کا روزہ ٹوٹ گیا“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصوم 28 (2368)، (تحفة الأشراف: 4823)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/123، 124، 125)، سنن الدارمی/الصوم 26 (1771) (صحیح)» (سند میں یحییٰ بن أبی کثیر مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، لیکن سابقہ حدیث تقویت پاکر صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو: الإرواء: 4/68/70 و صحیح أبی داود: 2050- 2051)
قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھنا لگوایا جب کہ آپ روزے سے تھے، اور احرام باندھے ہوئے تھے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الحج 36 (1835)، سنن الترمذی/الحج 22 (839)، (تحفة الأشراف: 6495)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/جزاء الصید 11 (1835)، الصوم 32 (1938)، الطب 12 (5695)، 15 (5700)، صحیح مسلم/الحج 11 (1202)، سنن النسائی/الحج 92 (2849)، مسند احمد (1/215، 221، 236، 248، 249، 260، 283، 286، 292، 306، 315، 333، 346، 351، 372، 374)، سنن الدارمی/المناسک 20 (1860)، (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے: 3081) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: صوم اور احرام دونوں حالتوں میں نبی اکرم ﷺ سے بچھنا لگوانا ثابت ہے،صحیح بخاری کے الفاظ ہیں: «'احْتَجَمَ وَهُوَ صَائِمٌ وَاحْتَجَمَ وَ هُوَ محْرِمٌ» (نبی اکرم ﷺ نے روزے کی حالت میں پچھنا لگوایا اور احرام کی حالت میں سینگی لگوائی)۔ قال الشيخ الألباني: صحيح بلفظ واحتجم وهو محرم
|