كتاب الصيام کتاب: صیام کے احکام و مسائل 1. بَابُ: مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الصِّيَامِ باب: روزے کی فضیلت کا بیان۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انسان کی ہر نیکی دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھا دی جاتی ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: سوائے روزے کے اس لیے کہ وہ میرے لیے خاص ہے، اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا، آدمی اپنی خواہش اور کھانا میرے لیے چھوڑ دیتا ہے، روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں: ایک افطار کے وقت اور دوسری اپنے رب سے ملنے کے وقت، اور روزے دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی بو سے بہتر ہے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «حدیث وکیع عن الأعمش قد أخرجہ: صحیح مسلم/الصوم 30 (1151)، (تحفة الأشراف: 12520)، وحدیث أبي معاویہ عن الأعمش قد أخرجہ: صحیح مسلم/الصوم 30 (1151)، (تحفة الأشراف: 12470)، مسند احمد (2/232، 257، 266، 273، 293، 352، 443، 445، 475، 477، 480، 501)، سنن الدارمی/ الصوم 50 (1811) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ روزہ دار کے سوا دوسری نیکیوں کا ثواب معین اور معلوم ہے، یا ان کا ثواب دینا فرشتوں کو سونپ دیا گیا ہے اور روزے کا ثواب اللہ تعالیٰ نے خاص اپنے علم میں رکھا ہے، اور وہ خود ہی قیامت کے دن روزہ دار کو عنایت فرمائے گا، اس کی وجہ یہ ہے کہ اور نیکیوں میں ریا کی گنجائش ہے، روزہ ریا سے پاک ہے، آدمی اسی وقت روزہ رکھے گا اور حیوانی و نفسانی خواہشات سے اسی وقت باز رہے گا جب اس کے دل میں اللہ تعالی کا ڈر ہو گا، ورنہ روزہ نہ رکھے گا اور لوگوں کے سامنے اپنے آپ کو روزہ دار ظاہر کرے گا۔ «خلوف» سے مراد وہ بو ہے جو سارے دن بھوکا پیاسا رہنے کی وجہ سے روزہ دار کے منہ سے آتی ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
قبیلہ عامر بن صعصعہ کے مطرف نامی ایک فرد بیان کرتے ہیں کہ عثمان بن ابی العاص ثقفی رضی اللہ عنہ نے انہیں پلانے کے لیے دودھ منگایا، تو انہوں نے کہا کہ میں روزے سے ہوں، اس پر عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”روزہ جہنم سے ڈھال ہے جیسے تم میں سے کسی کے پاس لڑائی میں ڈھال ہوتی ہے“۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الصیام 43 (2232)، (تحفة الأشراف: 9771)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/22، 217) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنت میں ایک دروازہ ہے جسے ریان کہا جاتا ہے، قیامت کے دن پکارا جائے گا، کہا جائے گا روزہ دار کہاں ہیں؟ تو جو روزہ داروں میں سے ہو گا وہ اس دروازے سے داخل ہو گا اور جو اس میں داخل ہو گا وہ کبھی پیاسا نہ ہو گا“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الصوم 55 (765)، (تحفة الأشراف: 4771)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الصوم 4 (1896)، بدأالخلق 9 (3257)، صحیح مسلم/الصوم30 (1152)، کلاھمادون جملة الظمأ، سنن النسائی/الصیام43 (2238)، مسند احمد (5/333، 335) (صحیح)» ( «وَمَنْ دَخَلَهُ لَمْ يَظْمَأْ أَبَدًا» کا جملہ صحیح نہیں ہے، تراجع الألبانی: رقم: 351)
قال الشيخ الألباني: صحيح ق دون جملة الظمأ
|