كِتَاب الْمَنَاسِكِ کتاب: اعمال حج اور اس کے احکام و مسائل 99. باب زِيَارَةِ الْقُبُورِ باب: قبروں کی زیارت کا بیان۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھ پر جب بھی کوئی سلام بھیجتا ہے تو اللہ تعالیٰ میری روح مجھے لوٹا دیتا ہے یہاں تک کہ میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 14839)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/527) (حسن)»
قال الشيخ الألباني: حسن
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ ۱؎ اور میری قبر کو میلا نہ بناؤ (کہ سب لوگ وہاں اکٹھا ہوں)، اور میرے اوپر درود بھیجا کرو کیونکہ تم جہاں بھی رہو گے تمہارا درود مجھے پہنچایا جائے گا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 13032)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/367) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی اس میں نماز پڑھنا اور عبادت کرنا نہ چھوڑو کہ تم اس میں مردوں کی طرح ہو جاؤ اس سے معلوم ہوا کہ جس گھر میں نماز اور عبادت نہیں ہوتی وہ قبرستان کے مانند ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ربیعہ بن ہدیر کہتے ہیں کہ میں نے طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کو سوائے اس ایک حدیث کے کوئی اور حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے نہیں سنا، میں نے عرض کیا: وہ کون سی حدیث ہے؟ تو انہوں نے کہا: ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے، آپ شہداء کی قبروں کا ارادہ رکھتے تھے جب ہم حرۂ واقم (ایک ٹیلے کا نام ہے) پر چڑھے اور اس پر سے اترے تو دیکھا کہ وادی کے موڑ پر کئی قبریں ہیں، ہم نے پوچھا: اللہ کے رسول! کیا ہمارے بھائیوں کی قبریں یہی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہمارے صحابہ کی قبریں ہیں ۱؎“، جب ہم شہداء کی قبروں کے پاس پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ ہمارے بھائیوں کی قبریں ہیں ۲؎“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 4997)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/161) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: جن کی موت اسلام پر ہوئی ہے اور وہ شہداء کا مقام نہیں پا سکے ہیں۔ ۲؎: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اخوت کی نسبت ان کی طرف کی یہ ان کے لئے بڑے شرف کی بات ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطحاء میں جو ذی الحلیفہ میں ہے اونٹ بٹھایا اور وہاں نماز پڑھی، چنانچہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی ایسا ہی کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصلاة 89 (484)، والحج 14 (1532)، 15 (1533)، 16 (1535)، والعمرة 14 (1799)، والمزارعة 16 (2336)، صحیح مسلم/الحج 6 (1188)، 77 (1275)، سنن النسائی/المناسک 24 (2660)، (تحفة الأشراف: 8338)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الحج 69(206)، مسند احمد (2/28، 87، 112، 138) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
مالک کہتے ہیں جب کوئی مدینہ واپس لوٹے اور معرس پہنچے تو اس کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ آگے بڑھے جب تک کہ نماز نہ پڑھ لے جتنا اس کا جی چاہے اس لیے کہ مجھے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں رات کو قیام کیا تھا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: میں نے محمد بن اسحاق مدنی کو کہتے سنا: معرس مدینہ سے چھ میل کے فاصلے پر ایک مقام ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، موطا امام مالک/الحج/ عقب حدیث (206) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح مقطوع
|