كِتَاب الْمَنَاسِكِ کتاب: اعمال حج اور اس کے احکام و مسائل 27. باب كَيْفَ التَّلْبِيَةُ باب: تلبیہ (لبیک کہنے) کا بیان۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تلبیہ یہ تھا: «لبيك اللهم لبيك، لبيك لا شريك لك لبيك، إن الحمد والنعمة لك والملك، لا شريك لك» ”حاضر ہوں اے اللہ! میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں، حمد و ستائش، نعمتیں اور فرماروائی تیری ہی ہے تیرا ان میں کوئی شریک نہیں“۔ راوی کہتے ہیں: عبداللہ بن عمر تلبیہ میں اتنا مزید کہتے «لبيك لبيك لبيك وسعديك والخير بيديك والرغباء إليك والعمل» ”حاضر ہوں تیری خدمت میں، حاضر ہوں، حاضر ہوں، نیک بختی حاصل کرتا ہوں، خیر تیرے ہاتھ میں ہے، تیری ہی طرف رغبت اور عمل ہے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحج 26 (1549)، واللباس 69(5951)، صحیح مسلم/الحج 3 (1184)، سنن النسائی/الحج 54 (2748، 2749)، (تحفة الأشراف: 8344)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الحج 13 (825)، سنن ابن ماجہ/المناسک 15 (2918)، موطا امام مالک/الحج 9(28)، مسند احمد (2/3، 28، 28، 34، 41، 43، 47، 48، 53، 76، 77، 79، 131)، سنن الدارمی/المناسک 13 (1849) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام باندھا، پھر انہوں نے تلبیہ کا اسی طرح ذکر کیا جیسے ابن عمر کی حدیث میں ہے اور کہا: لوگ (اپنی طرف سے اللہ کی تعریف میں) «ذا المعارج» اور اس جیسے کلمات بڑھاتے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سنتے تھے لیکن آپ ان سے کچھ نہیں فرماتے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/المناسک 15 (2919) (کلاھما بدون قولہ: ’’والناس یزیدون الخ)، (تحفة الأشراف: 2604)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الحج 19(1540) (في سیاق حجة النبي صلی اللہ علیہ وسلم الطویل) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ خاموشی اور سکوت تلبیہ کے مخصوص الفاظ پر اضافہ کے جواز کی دلیل ہے، اگرچہ افضل وہی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً ثابت ہے اور جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مداومت کی ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
سائب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے پاس جبرائیل آئے اور مجھے حکم دیا کہ میں اپنے صحابہ ۱؎ اور ساتھ والوں کو «الإهلال» یا فرمایا «التلبية» میں آواز بلند کرنے کا حکم دوں“ ۲؎۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الحج 15 (829)، سنن النسائی/الحج 55 (2754)، سنن ابن ماجہ/المناسک 16 (2922)، (تحفة الأشراف: 3788)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الحج 10 (34)، مسند احمد (4/55، 56)، سنن الدارمی/المناسک 14 (1850) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس سے پتہ چلا کہ مردوں کے لئے تلبیہ میں آواز بلند کرنا مستحب ہے، «أصحابي» کی قید سے اس حکم سے عورتیں خارج ہو گئی ہیں ان کے لئے بہتر یہی ہے کہ بلند آواز سے تلبیہ نہ پکاریں۔ ۲؎: اہلال اور تلبیہ دونوں ایک ہی معنی میں ہے، راوی کو شک ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلال کہا یا تلبیہ، مراد یہ ہے کہ دونوں میں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی ایک ہی لفظ کہا۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|