كِتَاب الْمَنَاسِكِ کتاب: اعمال حج اور اس کے احکام و مسائل 78. باب فِي رَمْىِ الْجِمَارِ باب: رمی جمرات کا بیان۔
والدہ سلیمان بن عمرو بن احوص رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سوار ہو کر بطن وادی سے جمرہ پر رمی کرتے دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر کنکری پر تکبیر کہتے تھے، ایک شخص آپ کے پیچھے تھا، وہ آپ پر آڑ کر رہا تھا، میں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ تو لوگوں نے کہا: فضل بن عباس رضی اللہ عنہما ہیں، اور لوگوں کی بھیڑ ہو گئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگو! تم میں سے کوئی کسی کو قتل نہ کرے (یعنی بھیڑ کی وجہ سے ایک دوسرے کو کچل نہ ڈالے) اور جب تم رمی کرو تو ایسی چھوٹی کنکریوں سے مارو جنہیں تم دونوں انگلیوں کے بیچ رکھ سکو“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/المناسک 63 (3028)، (تحفة الأشراف: 18306)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/503، 5/270، 379، 6/379) (حسن)»
قال الشيخ الألباني: حسن
والدہ سلیمان بن عمرو بن احوص رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جمرہ عقبہ کے پاس سوار دیکھا اور میں نے دیکھا کہ آپ کی انگلیوں میں کنکریاں تھیں، تو آپ نے بھی رمی کی اور لوگوں نے بھی رمی کی ۱؎۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 18306) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ان احادیث سے معلوم ہوا کہ جمرات کی رمی سواری پر درست ہے، لیکن موجودہ حالات میں منتظمین حج کے احکام کی روشنی میں مناسک حج، قربانی، اور رمی جمرات وغیرہ کے کام انجام دینا چاہئے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
اس سند سے بھی یزید بن ابی زیاد سے اسی طریق سے اسی حدیث کے ہم مثل مروی ہے اس میں «ولم يقم عندها» ”اور اس کے پاس نہیں ٹھہرے“ کا جملہ زائد ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 1966، (تحفة الأشراف: 18306) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ یوم النحر کے بعد تین دنوں میں جمرات کی رمی کے لیے پیدل چل کر آتے تھے اور پیدل ہی واپس جاتے اور وہ بتاتے تھے کہ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی کرتے تھے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 7727)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الحج 63 (899)، مسند احمد (2/114، 138، 156) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ رمی جمرات کے لئے پیدل چل کر آنا افضل ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ اپنی سواری پر یوم النحر کو رمی کر رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: ”تم لوگ اپنے حج کے ارکان سیکھ لو کیونکہ مجھے نہیں معلوم کہ میں اپنے اس حج کے بعد کوئی حج کر سکوں گا یا نہیں“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الحج 53 (1297)، سنن النسائی/الحج 220 (3064)، (تحفة الأشراف: 2804)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الحج 59 (894)، سنن ابن ماجہ/المناسک 75 (3053)، مسند احمد (3/313، 319، 400)، سنن الدارمی/المناسک 58 (1937) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی سواری پر بیٹھ کر یوم النحر کو چاشت کے وقت رمی کرتے دیکھا پھر اس کے بعد جو رمی کی (یعنی گیارہ، بارہ اور تیرہ کو) تو وہ زوال کے بعد کی۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/ الحج 53 (1299)، سنن الترمذی/ الحج 59 (894)، سنن النسائی/ الحج 221 (3065)، سنن ابن ماجہ/ 75 المناسک (3053)، (تحفة الأشراف: 2795)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/312، 399)، دی/ المناسک 58 (1937) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
وبرہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ کنکریاں کب ماروں؟ آپ نے کہا: جب تمہارا امام کنکریاں مارے تو تم بھی مارو، میں نے پھر یہی سوال کیا، انہوں نے کہا: ہم سورج ڈھلنے کا انتظار کرتے تھے تو جب سورج ڈھل جاتا تو ہم کنکریاں مارتے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحج 134 (1746)، (تحفة الأشراف: 8554) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یوم النحر) کے آخری حصہ میں جس وقت ظہر پڑھ لی طواف افاضہ کیا، پھر منیٰ لوٹے اور تشریق کے دنوں تک وہاں ٹھہرے رہے، جب سورج ڈھل جاتا تو ہر جمرے کو سات سات کنکریاں مارتے، ہر کنکری کے ساتھ تکبیر کہتے، اور پہلے اور دوسرے جمرے پر دیر تک ٹھہرتے، روتے، گڑگڑاتے اور دعا کرتے اور تیسرے جمرے کو کنکریاں مار کر اس کے پاس نہیں ٹھہرتے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 17523)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/90) (صحیح)» (لیکن «صلی الظہر» - ظہر پڑھی- کا جملہ صحیح نہیں ہے)
قال الشيخ الألباني: صحيح إلا قوله حين صلى الظهر فهو منكر
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب وہ جمرہ کبری (جمرہ عقبہ) کے پاس آئے تو بیت اللہ کو اپنے بائیں جانب اور منیٰ کو دائیں جانب کیا اور جمرے کو سات کنکریاں ماریں، اور کہا: اسی طرح اس ذات نے بھی کنکریاں ماری تھیں جس پر سورۃ البقرہ نازل کی گئی۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحج 135 (1747)، 138 (1750)، صحیح مسلم/الحج 50 (1296)، سنن الترمذی/الحج 64 (901)، سنن النسائی/المناسک 226 (3073، 3075)، سنن ابن ماجہ/المناسک 64 (3030)، (تحفة الأشراف: 9382)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/374، 408، 415، 427، 430، 432، 436، 456، 458) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عاصم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ کے چرواہوں کو (منیٰ میں) رات نہ گزارنے کی رخصت دی اور یہ کہ وہ یوم النحر کو رمی کریں، پھر اس کے بعد والے دن یعنی گیارہویں کو گیارہویں اور بارہویں دونوں دنوں کی رمی کریں، اور پھر روانگی کے دن (تیرہویں کو) رمی کریں گے۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الحج 108 (954 و 955)، سنن النسائی/الحج 225 (307)، سنن ابن ماجہ/المناسک 67 (3036، 3037)، (تحفة الأشراف: 5030)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الحج 72 (218)، مسند احمد (5/450)، سنن الدارمی/المناسک 58 (1938) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چرواہوں کو رخصت دی کہ ایک دن رمی کریں اور ایک دن ناغہ کریں۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 5030) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابومجلز کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے رمی جمرات کا حال دریافت کیا تو انہوں نے کہا: مجھے نہیں معلوم کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھ کنکریاں ماریں یا سات ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الحج 227 (3080)، (تحفة الأشراف: 6541)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/372) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو معلوم نہ ہو سکا تھا، دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی روایات سے ہر جمرے کو س ات کنکریاں مارنا ثابت ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے جب کوئی جمرہ عقبہ کی رمی کر لے تو اس کے لیے سوائے عورتوں کے ہر چیز حلال ہے“ ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث ضعیف ہے، حجاج نے نہ تو زہری کو دیکھا ہے اور نہ ہی ان سے سنا ہے ۲؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 17926)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/143) (صحیح)» (متابعات اور شواہد سے تقویت پا کر یہ روایت صحیح ہے)
وضاحت: ۱؎: بیویوں سے صحبت یا بوس وکنار اس وقت جائز ہو گا جب حاجی طواف زیارت سے فارغ ہو جائے۔ ۲؎: مسند احمد کی سند میں زہری کی جگہ ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم ہیں حجاج بن أرطاۃ کا ان سے سماع ثابت ہے، نیز حدیث کے دیگر شواہد بھی ہیں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|