كِتَاب الْمَنَاسِكِ کتاب: اعمال حج اور اس کے احکام و مسائل 43. باب فِي الْفِدْيَةِ باب: محرم کے فدیہ کا بیان۔
کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلح حدیبیہ کے زمانے میں ان کے پاس سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہیں تمہارے سر کی جوؤں نے ایذا دی ہے؟“ کہا: ہاں، اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سر منڈوا دو، پھر ایک بکری ذبح کرو، یا تین دن کے روزے رکھو، یا چھ مسکینوں کو تین صاع کھجور کھلاؤ ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المحصر 5 (1814)، 6 (1815)، 7 (1816)، 8 (1817)، والمغازي 35 (4159)، وتفسیر البقرة 32 (4517)، والمرضی 16 (5665)، والطب 16 (5703)، وکفارات الأیمان 1 (6808)، صحیح مسلم/الحج10 (1201)، سنن الترمذی/الحج 107(953)، سنن النسائی/الحج 96 (2854)، (تحفة الأشراف: 11114)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/المناسک 86 (3079)، موطا امام مالک/الحج 78 (237)، مسند احمد (4/ 242، 243، 244) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ حدیث آیت کریمہ «فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضاً أَوْ بِهِ أَذًى مِّن رَّأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِّن صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ» (سورۃ بقرۃ: ۱۹۶) کی تفسیر ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: ”اگر تم چاہو تو ایک بکری ذبح کر دو اور اگر چاہو تو تین دن کے روزے رکھو، اور اگر چاہو تو تین صاع کھجور چھ مسکینوں کو کھلا دو“۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 11114) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلح حدیبیہ کے زمانے میں ان کے پاس سے گزرے، پھر انہوں نے یہی قصہ بیان کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا تمہارے ساتھ دم دینے کا جانور ہے؟“، انہوں نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو تو تین دن کے روزے رکھو، یا چھ مسکینوں کو تین صاع کھجور کھلاؤ، اس طرح کہ ہر دو مسکین کو ایک صاع مل جائے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 11111)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/241، 243) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے (اور انہیں سر میں (جوؤوں کی وجہ سے) تکلیف پہنچی تھی تو انہوں نے سر منڈوا دیا تھا)، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک گائے قربان کرنے کا حکم دیا۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 1856، (تحفة الأشراف: 11114) (ضعیف) (وقولہ: ’’بقرة‘‘ منکر)» (اس کا ایک راوی مجہول ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف وقوله بقرة منكر
کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حدیبیہ کے سال میرے سر میں جوئیں پڑ گئیں، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا یہاں تک کہ مجھے اپنی بینائی جانے کا خوف ہوا تو اللہ تعالیٰ نے میرے سلسلے میں «فمن كان منكم مريضا أو به أذى من رأسه» کی آیت نازل فرمائی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا اور مجھ سے فرمایا: ”تم اپنا سر منڈوا لو اور تین دن کے روزے رکھو، یا چھ مسکینوں کو ایک فرق ۱؎ منقٰی کھلاؤ، یا پھر ایک بکری ذبح کرو“ چنانچہ میں نے اپنا سر منڈوایا پھر ایک بکری کی قربانی دے دی۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 1856، (تحفة الأشراف: 11114) (حسن)» (لیکن منقی کا ذکر منکر ہے صحیح روایت کھجور کی ہے)
وضاحت: ۱؎: ”فرق“: ایک پیمانہ ہے جس میں چار صاع کی گنجائش ہوتی ہے۔ قال الشيخ الألباني: حسن لكن ذكر الزبيب منكر والمحفوظ التمر كما في أحاديث العباس
اس سند سے بھی کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے یہی قصہ مروی ہے البتہ اس میں اتنا اضافہ ہے «أى ذلك فعلت أجزأ عنك» ”اس میں سے تو جو بھی کر لو گے تمہارے لیے کافی ہے“۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 1856، (تحفة الأشراف: 11114) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
|