كِتَاب الْمَنَاسِكِ کتاب: اعمال حج اور اس کے احکام و مسائل 79. باب الْحَلْقِ وَالتَّقْصِيرِ باب: بال منڈانے اور کٹوانے کا بیان۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «اللهم ارحم المحلقين» ”اے اللہ سر منڈوانے والوں پر رحم کر“، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اور کٹوانے والوں پر؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «اللهم ارحم المحلقين» ”اے اللہ سر منڈوانے والوں پر رحم فرما“، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اور کٹوانے والوں پر؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اور کٹوانے والوں پر بھی ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحج 147 (1727)، صحیح مسلم/الحج 55 (1301)، سنن ابن ماجہ/المناسک 71 (3043)، (تحفة الأشراف: 7947، 18354)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الحج 47 (913)، موطا امام مالک/الحج 60(184)، مسند احمد (2/34، 79، 138، 151)، سنن الدارمی/المناسک 64 (1947) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بال منڈانا کتروانے سے زیادہ بہتر ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں اپنا سر منڈوایا۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المغازی 78 (4410)، صحیح مسلم/ الحج 55 (1304)، (تحفة الأشراف: 8454)، وقد أخرجہ: (2/88، 128) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم النحر کو جمرہ عقبہ کی رمی کی، پھر آپ منیٰ میں اپنی قیام گاہ لوٹ آئے، پھر قربانی کے جانور منگا کر انہیں ذبح کیا، اس کے بعد حلاق (سر مونڈنے والے کو بلایا)، اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کے داہنے حصے کو پکڑا، اور بال مونڈ دیئے ۱؎، پھر ایک ایک اور دو دو بال ان لوگوں میں تقسیم کئے جو آپ کے قریب تھے پھر بایاں جانب منڈوایا اور فرمایا: ”ابوطلحہ یہاں ہیں؟“ اور وہ سب بال ابوطلحہ کو دے دیئے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الحج 56 (1305)، سنن الترمذی/الحج 73 (912)، سنن النسائی/ الکبری/ الحج (4116)، (تحفة الأشراف: 1456)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الوضوء 33 (171)، مسند احمد (3/111،208، 214، 256) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بال کٹوانے کے مقابلے میں منڈوانا زیادہ بہتر ہے، اور بال منڈوانے اور کتروانے میں یہ خیال رہے کہ اس کو داہنی جانب سے شروع کرے، مونڈنے والے کو بھی اس سنت کا خیال رکھنا چاہئے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ہشام بن حسان سے اس سند سے بھی یہی حدیث مروی ہے البتہ اس میں اس طرح ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلاق (سر مونڈنے والے) سے فرمایا: ”میرے دائیں جانب سے شروع کرو اور اسے مونڈو“۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 1456) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منیٰ کے دن پوچھا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: ”کوئی حرج نہیں“، چنانچہ ایک شخص نے پوچھا: میں نے ذبح کرنے سے پہلے حلق کرا لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ذبح کر لو، کوئی حرج نہیں“، دوسرے نے کہا: مجھے شام ہو گئی اور میں نے اب تک رمی نہیں کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رمی اب کر لو، کوئی حرج نہیں ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/العلم 24 (84)، والحج 125(1723)، 130 (1735)، والأیمان 15 (6666)، سنن النسائی/الحج 224 (3069)، سنن ابن ماجہ/المناسک 74 (3050)، (تحفة الأشراف: 6047)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الحج 57 (1307)، مسند احمد (1/216، 258، 269، 291، 300، 311، 328) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: حج میں نحر (قربانی) کے دن جمرہ کبری کو کنکری مارنا، ہدی کا جانور ذبح کرنا، بالوں کا حلق (منڈوانا) یا قصر (کٹوانا) پھر طواف افاضہ (طواف زیارہ) (یعنی کعبۃ اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی) میں ترتیب افضل ہے، مگر اس حدیث کی روشنی میں رمی، ذبح، حلق، اور طواف میں ترتیب باقی نہ رہ جائے تو دم لازم نہیں ہو گا، اور نہ ہی حج میں کوئی حرج واقع ہو گا۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عورتوں پر حلق نہیں صرف «تقصير» (بال کٹانا) ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 6576)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/المناسک 63 (1946) (صحیح)» (اگلی سند سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح ہے)
قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عورتوں پر حلق نہیں بلکہ صرف «تقصير» (بال کٹانا) ہے“۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 6576) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
|