كِتَاب الْمَنَاسِكِ کتاب: اعمال حج اور اس کے احکام و مسائل 95. باب فِي دُخُولِ الْكَعْبَةِ باب: کعبہ میں داخل ہونے کا بیان۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے نکلے اور آپ خوش تھے پھر میرے پاس آئے اور آپ غمگین تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں کعبے کے اندر گیا اگر مجھے وہ بات پہلے معلوم ہو جاتی جو بعد میں معلوم ہوئی ۱؎ تو میں اس میں داخل نہ ہوتا، مجھے اندیشہ ہے کہ میں نے اپنی امت کو زحمت میں ڈال دیا ہے ۲؎“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الحج 45 (873)، سنن ابن ماجہ/المناسک 79 (3064)، (تحفة الأشراف: 16230)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/137) (ضعیف)» (اس کے راوی اسماعیل کثیرالوہم ہیں)
وضاحت: ۱؎: کہ لوگوں کو کعبہ کے اندر داخل ہونے میں بڑی پریشانیاں اٹھانا پڑیں گی۔ ۲؎: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اندیشہ صحیح ثابت ہوا عوام نے کعبہ کے اندر جانے کو ضروری سمجھ لیا چنانچہ اس کے لئے انہیں بڑی دھکم پیل کرنی پڑتی تھی، اللہ بھلا کرے سعودی حکومت کا جس نے کعبہ کے اندر عام لوگوں کا داخلہ بند کر دیا۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف
اسلمیہ کہتی ہیں کہ میں نے عثمان رضی اللہ عنہ سے پوچھا ۱؎: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو بلایا تو آپ سے کیا کہا؟ تو انہوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہیں یہ بتانا بھول گیا کہ مینڈھے ۲؎ کی دونوں سینگوں کو چھپا دو اس لیے کہ کعبہ میں کوئی چیز ایسی رہنی مناسب نہیں ہے جو نماز پڑھنے والے کو غافل کر دے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 9762)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/380) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: عثمان سے مراد عثمان بن طلحہ حجبی رضی اللہ عنہ ہیں۔ ۲؎: اس دنبہ کی سینگیں جس کو اسماعیل علیہ السلام کی جگہ پر ذبح کرنے کے لئے جبریل علیہ السلام لے آئے تھے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|