كتاب الزاينة (من المجتبى) کتاب: زینت اور آرائش کے احکام و مسائل 111. بَابُ: التَّصَاوِيرِ باب: تصویروں اور مجسموں کا بیان۔
ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فرشتے ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا ہو یا تصویر (مجسمہ)“۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 4287 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”فرشتے ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا ہو، اور نہ ایسے گھر میں جس میں مورتیاں (مجسمے)“۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 4287 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبیداللہ بن عبداللہ سے روایت ہے کہ وہ ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس عیادت کے لیے گئے، ان کے پاس انہیں سہل بن حنیف مل گئے۔ تو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ ان کے نیچے سے بچھونا نکالے۔ ان سے سہل نے کہا: اسے کیوں نکال رہے ہیں؟ وہ بولے؟ اس لیے کہ اس میں تصویریں (مجسمے) ہیں اور اسی کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ فرمان ہے جو تمہارے علم میں ہے، وہ بولے: کیا آپ نے یہ نہیں فرمایا: ”اگر کپڑے میں نقش ہوں تو کوئی حرج نہیں“، انہوں نے کہا: کیوں نہیں، لیکن مجھے یہی بھلا معلوم ہوتا ہے (کہ میں نقش والی چادر بھی نہ رکھوں) ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/اللباس 18 (1750)، (تحفة الأشراف: 3782) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: تصویر کے سلسلہ میں صحیح بات یہ ہے کہ ذی روح (جاندار) کی تصویر حرام ہے، خواہ یہ تصاویر جسمانی ہیئت (مجسموں کی شکل) میں ہوں یا نقش و نگار کی صورت میں، إلا یہ کہ ان کے اجزاء متفرق ہوں، البتہ گڑیوں کی شکل کو علماء نے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فرشتے ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں تصویر (مجسمہ) ہو“، بسر کہتے ہیں: پھر زید بیمار پڑ گئے تو ہم نے ان کی عیادت کی، اچانک دیکھا کہ ان کے دروازے پر پردہ ہے جس میں تصویر ہے، میں نے عبیداللہ خولانی سے کہا: کیا زید نے ہمیں تصویر کے بارے میں پہلے روز حدیث نہیں سنائی تھی؟ کہا: عبیداللہ نے کہا: کیا تم نے انہیں یہ کہتے ہوئے نہیں سنا: کپڑے کے نقش کے سوا۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/بدء الخلق 7 (3226)، اللباس 92 (5958)، صحیح مسلم/اللباس 26 (2106)، سنن ابی داود/اللباس 48 (4153)، (تحفة الأشراف: 3775)، مسند احمد (4/28) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کھانا تیار کیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مدعو کیا، چنانچہ آپ تشریف لائے اور اندر داخل ہوئے تو ایک پردہ دیکھا جس میں تصویریں بنی ہوئی تھیں ۱؎، تو آپ باہر نکل گئے اور فرمایا: ”فرشتے ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جن میں تصویریں ہوں“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الٔقطعمة 56 (3359)، اللباس 44 (3650) (تحفة الأشراف: 10117) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: جو جاندار کی تھیں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے پھر اندر چلے گئے، میں نے وہاں ایک باریک رنگین کپڑا لٹکا رکھا تھا جس میں پر دار گھوڑے بنے ہوئے تھے، جب آپ نے اسے دیکھا تو فرمایا: ”اسے نکال دو“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 17229)، مسند احمد (6/229) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہمارے پاس ایک پردہ تھا جس پر چڑیا کی شکل بنی ہوئی تھی جب کوئی آنے والا آتا تو وہ ٹھیک سامنے پڑتا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عائشہ! اسے بدل دو، اس لیے کہ جب میں اندر آتا ہوں اور اسے دیکھتا ہوں تو دنیا یاد آتی ہے“، ہمارے پاس ایک چادر تھی جس میں نقش و نگار تھے، ہم اسے استعمال کیا کرتے تھے۔ لیکن اسے ہم نے کاٹا نہیں ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/اللباس26(2107)، سنن الترمذی/صفة القیامة 3 (2468)، (تحفة الأشراف: 16101)، مسند احمد (6/4949، 53، 241) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: بقول امام نووی: یہ تصویروں کی حرمت سے پہلے کی بات ہے، اس لیے آپ نے ”حرمت“ کی بجائے ”ذکرِ دنیا“ کا حوالہ دیا اور ہٹوا دیا، یا یہ غیر جاندار کے نقش و نگار تھے جنہیں دنیاوی اسراف و تبذیر کی علامت ہونے کے سبب آپ نے ہٹوا دیا۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرے گھر میں ایک کپڑا تھا جس میں تصویریں تھیں ۱؎، چنانچہ میں نے اسے گھر کے ایک روشندان میں لٹکا دیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے، پھر آپ نے فرمایا: ”عائشہ! اسے ہٹا دو“، پھر میں نے اسے نکال دیا اور اس کے تکیے بنا دیے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 762 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ بھی تصویروں کی حرمت سے پہلے کی بات ہے، یا یہ بھی غیر جاندار چیزوں کے نقش و نگار تھے، لیکن دیواروں یا روشن دانوں پر پردہ اسراف وتبذیر ہے جس کی وجہ سے آپ نے ہٹوا کر بچھونے بنوا دیئے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک پردہ لٹکایا جس میں تصویریں تھیں، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اندر آئے تو اسے نکال دیا، چنانچہ میں نے اسے کاٹ کر دو تکیے بنا دیے۔ اس وقت مجلس میں بیٹھے ایک شخص نے جسے ربیعہ بن عطا کہا جاتا ہے: نے کہا میں نے ابو محمد، یعنی قاسم کو، عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہوئے سنا، وہ بولیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان پر ٹیک لگاتے تھے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/اللباس 26 (2106)، (تحفة الأشراف: 17454، 17476)، مسند احمد 6/103، 219) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
|