كتاب الزاينة (من المجتبى) کتاب: زینت اور آرائش کے احکام و مسائل 67. بَابُ: الْوَصْلِ فِي الشَّعْرِ باب: بالوں میں جوڑ لگانے کا بیان۔
حمید بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ میں نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو سنا، وہ مدینے میں منبر پر تھے، انہوں نے اپنی آستین سے بالوں کا ایک گچھا نکالا اور کہا: مدینہ والو! تمہارے علماء کہاں ہیں؟ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان جیسی چیزوں سے منع فرماتے ہوئے سنا ہے، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بنی اسرائیل کی عورتوں نے جب ان جیسی چیزوں کو اپنانا شروع کیا تو وہ ہلاک و برباد ہو گئے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الٔنبیاء 54 (3468)، اللباس 83 (5932)، صحیح مسلم/اللباس 33 (2127)، سنن ابی داود/الترجل 5 (4167)، سنن الترمذی/الأدب 32 (الاستئذان 66) (2782)، (تحفة الأشراف: 11407)، موطا امام مالک/الشعر 1 (2)، مسند احمد (4/95، 97) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ مدینہ آئے اور ہمیں خطاب کیا، آپ نے بالوں کا ایک گچھا لے کر کہا: میں نے سوائے یہود کے کسی کو ایسا کرتے نہیں دیکھا ۱؎، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک جب یہ چیز پہنچی تو آپ نے اس کا نام دھوکا رکھا۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 5095 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی: اپنے اصلی بالوں میں دوسرے کے بال جوڑنا یہودی عورتوں کا کام ہے، مسلمان عورتوں کو اس سے بچنا ضروری ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|