Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابن ماجه
كتاب الصيام
کتاب: صیام کے احکام و مسائل
7. بَابُ : مَا جَاءَ فِي «صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ»
باب: چاند دیکھ کر روزہ رکھنے اور چاند دیکھ کر روزہ توڑنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1654
حَدَّثَنَا أَبُو مَرْوَانَ مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ الْعُثْمَانِيُّ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا رَأَيْتُمُ الْهِلَالَ فَصُومُوا، وَإِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَأَفْطِرُوا، فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَاقْدُرُوا لَهُ"، قَالَ: وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَصُومُ قَبْلَ الْهِلَالِ بِيَوْمٍ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم چاند دیکھ لو تو روزہ رکھو، اور چاند دیکھ کر ہی روزہ توڑا کرو، اور اگر چاند بادل کی وجہ سے مشتبہ ہو جائے تو تیس دن کی تعداد پوری کرو ۱؎۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما چاند نکلنے کے ایک روز پہلے سے ہی روزہ رکھنا شروع کر دیتے تھے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6804)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الصوم 5 (1900)، 11 (1908)، صحیح مسلم/الصوم 2 (1081)، سنن ابی داود/الصوم 4 (2320)، سنن النسائی/الصوم 7 (2122)، موطا امام مالک/الصیام 1 (1) مسند احمد (2/5، 5/5، 13، 63، 145)، سنن الدارمی/الصوم 2 (1726) (صحیح) (ملاحظہ ہو: الإرواء: 4/10 و صحیح أبی داود: 2009)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ روزہ رکھنے اور چھوڑنے میں چاند دیکھنا ضروری ہے محض فلکی حساب کافی نہیں۔ رہا یہ مسئلہ کہ ایک علاقہ کی رویت دوسرے علاقہ والوں کے لیے معتبر ہو گی یا نہیں تو اس مسئلہ میں علماء کا اختلاف ہے، رویت ہلال کا مسئلہ ہمیشہ بحث کا موضوع بنا رہتا ہے، اس لیے اس مسئلہ کی وضاحت ضروری ہے: اگر کسی جگہ چاند نظر آ جائے تو کیا سارے مسلمانوں کے لیے واجب ہے کہ وہ اس رویت کی بنا پر روزہ رکھیں یا روزہ توڑ دیں یا ہر ملک اور علاقہ کے لوگ اپنے ملک کے مطلع کے مطابق چاند دیکھ کر اس کا اعتبار کریں، اور اس کے مطابق عمل کریں۔ (۱) جمہور اہل علم جن میں امام ابوحنیفہ اور امام احمد بھی داخل ہیں کے نزدیک اگر ایک شہر میں چاند نکل آئے تو ہر جگہ کے لوگ اس کے مطابق روزہ رکھیں، اور چھوڑیں، یعنی ایک علاقے کی رویت دوسرے علاقے کے لیے کافی ہو گی، اس لیے کہ حدیث میں وارد «صوموا» اور «أفطروا» کا حکم عام ہے، اس کے مخاطب دنیا کے تمام مسلمان ہیں، ان کے نزدیک رویت ہلال میں مطالع کے اتفاق اور اختلاف کا کوئی اعتبار نہیں۔ (۲) علماء کی ایک جماعت جن میں امام شافعی سرفہرست ہیں کے نزدیک رویت ہلال کے مسئلے میں اختلاف مطالع مؤثر اور معتبر ہے، زیر نظر حدیث میں جو حکم ہے وہ ان لوگوں کے لیے جن کے یہاں ہلال نظر آ گیا ہے، لیکن جہاں چاندنظر ہی نہیں آیا تو ان کے لیے یہ حکم اس وقت مؤثر ہو گا جب چاند نظر آئے جا ئے گا جیسے صوم و صلاۃ کے اوقات میں ہر جگہ کے طلوع اور غروب کا اعتبار ہے، ایسے ہی چاند کی رویت میں بھی اختلاف مطالع مؤثر ہے، اس لیے ایک علاقہ کی رویت دوسرے علاقے کے مسلمانوں کے لئے کافی نہیں، اس حدیث کے مخاطب صرف وہ مسلمان ہیں جنھوں نے چاند دیکھا ہو، اور جن علاقے کے مسلمانوں نے چاند دیکھا ہی نہیں وہ اس کے مخاطب نہیں ہیں، اس لیے ہر علاقے کے لیے اپنی اپنی الگ الگ رویت ہے جس کے مطابق وہ روزہ رکھنے اور عید منانے کا فیصلہ کریں گے۔ شیخ الإسلام ابن تیمیہ کہتے ہیں: اہل علم کا اس مسئلے پر اتفاق ہے کہ مطالع مختلف ہوتے ہیں، اگر مطلع ایک ہو تو روزہ لازمی طور پر رکھنا ہو گا، ورنہ اختلاف مطالع کی صورت میں روزہ رکھنا ضروری نہیں ہو گا، شافعیہ کا صحیح ترین قول نیز حنبلی مذہب کا ایک قول یہی ہے، اس عقلی دلیل کے ساتھ اختلاف مطالع کے مؤثر ہونے کی نقلی دلیل صحیح مسلم میں آئی ہے: کریب کہتے ہیں کہ میں شام آیا اور جمعہ کی رات میں رمضان کا چاند دیکھا آخری مہینہ میں واپس مدینہ آیا تو مجھ سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے پوچھا: تم لوگوں نے شام میں کب چاند دیکھا تو میں نے جواب دیا کہ جمعہ کی رات کو لوگوں نے چاند دیکھا اور روزہ رکھا، ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: ہم لوگوں نے مدینہ میں سنیچر کی رات کو چاند دیکھا ہے، ہم چاند دیکھ کر روزہ توڑیں گے یا تیس دن پورا کریں گے، اس لیے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایسے ہی حکم دیا ہے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں کہ اہل علم کا عمل اس حدیث پر ہے۔ اس قصے سے یہ بات واضح ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے شام والوں کی رویت کا اعتبار نہیں کیا بلکہ مدینہ والوں کی رویت کو معتبر مانا۔ اس مذہب کے قائلین اختلاف مطالع کو جو کہ ایک حقیقت ہے رویت ہلال کے مسئلہ میں معتبر مانتے ہیں، امت میں اس سلسلے میں شروع سے اختلاف چلا آ رہا ہے، جس کی بنیاد حدیث کے ساتھ ساتھ اختلاف مطالع کو معتبر ماننا بھی ہے۔ کتاب الزلال کے مؤلف فرماتے ہیں: یہ بات یقینی طور پر جان لینی چاہئے صحیح بات جس پر محقق علمائے حدیث و اہل نظر اور فلکیات کے ماہرین کا اتفاق ہے کہ رویتِ ہلال میں دیکھا جائے گا کہ جس جگہ رویت ہوئی ہے، وہاں سے دو ہزار دو سو چھبیس (۲۲۲۶) کلومیٹر کے درمیان کی دوری کا حکم اتحاد مطالع کی وجہ سے روزہ رکھنے اور توڑنے میں یکساں ہو گا، اور اگر اس سے زیادہ مسافت ہو گی تو اس کا اعتبارصحیح نہیں ہو گا، اور ہر علاقے کا حکم اس کے مطلع کے اختلاف کے مطابق ہو گا، چاہے یہ دوری مشرق و مغرب کی ہو یا شمال و جنوب کی اور چاہے یہ ایک ملک میں ہو یا ایک اقلیم میں، یہ شرعی دلائل اور فلکیاتی حساب کے موافق ہے، اور اس سے سارے اشکالات ختم ہو جاتے ہیں «واللہ اعلم» رویت ہلال سے متعلق سعودی عرب کے کبار علماء کے بورڈ کے متفق علیہ فتوے کا خلاصہ درج ذیل ہے: اختلافِ مطالع ضروری طور پر معلوم و مشہور چیز ہے، جس کے بارے میں کوئی اختلاف ہے ہی نہیں، ہاں علماء کے نزدیک اس کے معتبر ماننے اور نہ ماننے کے درمیان اختلاف ہے، اختلافِ مطالع کو رویت ہلال کے سلسلے میں مؤثر و معتبر ماننا اور نہ ماننا ان مسائل میں سے ہے جن میں اجتہاد کی گنجائش ہے، معتبر اہل علم اور اہل دین کے یہاں اس میں اختلاف رہا ہے، اور یہ جائز قسم کا اختلاف ہے، اہل علم کی اس میں دو رائے ہے، ایک گروہ اختلافِ مطالع کو مؤثر مانتا ہے، اور دوسرے گروہ کے یہاں اختلافِ مطالع کا اعتبار نہیں ہے، ہر فریق کا اپنا اپنا استدلال ہے، علماء بورڈ نے اس مسئلے کے مختلف گوشوں پر غور و خوض کر کے اور یہ مان کر کہ یہ مسئلہ چودہ سال سے امت میں موجود ہے، اس رائے کا اظہار کیا کہ ان گزشتہ صدیوں میں ہمیں کسی ایسے زمانے کا علم نہیں ہے جس میں ایک شہر کی رویت کی بنا پر سب لوگوں نے ایک دن ہی عید منائی ہو، اس لیے بورڈ کے ممبران کا فیصلہ یہ ہے کہ یہ مسئلہ جیسے ہے ویسے ہی رہنے دیا جائے، ہر اسلامی ملک کو اس بات کا حق ہے کہ ان دونوں میں سے ان کے علماء وفقہاء جس رائے کے مطابق فتوی دیں اس کے مطابق عمل کیا جائے، رہ گیا چاند کا ثبوت فلکیاتی حساب سے تو علماء بورڈ اسے بالاجماع غیر معتبر مانتا ہے، «واللہ اعلم» ۔ (ملاحظہ ہو: توضیح الأحکام من بلوغ المرام للشیخ عبداللہ بن عبدالرحمن البسام حدیث نمبر:۵۴۱)

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: بخاري ومسلم

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1654 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1654  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
چاند نظر آنے پرقمری مہینہ شروع ہوجاتا ہے۔
رات اپنے بعد والے دن کے ساتھ گنی جاتی ہے۔

(2)
چاند دیکھ کر روزہ رکھنے کا مطلب رات ہی کو روزہ رکھنا نہیں کیونکہ روزے کا وقت صبح صادق سے شروع ہوتا ہے۔

(3)
چاند دیکھ کر روزہ چھوڑنے کامطلب یہ ہے کہ شوال کا چاند نظر آجائے تو وہ رات شوال کی پہلی رات ہوگی۔
رمضان کے احکام ختم ہوجایئں گے۔
اگر سورج غروب ہونے سے پہلے چاند نظر آ جائے۔
جیسے بعض اوقات تیس کا مہینہ ہونے کی صورت میں ہوجاتا ہے۔
تو سورج غروب ہونے سے پہلے روزہ افطار نہ کیا جائے۔
کیونکہ روزہ غروب آفتاب پر ختم ہوتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
﴿ ثُمَّ أَتِمُّوا۟ ٱلصِّيَامَ إِلَى ٱلَّيْلِ ۚ﴾  (البقرۃ: 187/2)
پھر رات تک روزہ پورا کرو
(4)
بادل ہونے کی صورت میں اندازہ کرنے کا مطلب تیس روزے پورا کرنا ہے۔
کیونکہ دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں۔ (فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَأَكْمِلُوا الْعِدَّةَ ثَلاَثِيْن)
اگر بادل ہوجایئں تو تیس کی گنتی پوری کرلو (صحیح البخاري، الصوم، باب قول النبي إذا رایتم الھلال فصوموا واذا رایتموہ فافطروا حدیث 1907)

(5)
تیسواں روزہ رکھنے کو اندازہ اسی لئے کہا گیا ہے۔
کہ مذکورہ صورت میں چاند نہ ہونا یقینی نہیں لیکن چاند ہونے کا یقین نہ ہونے کی وجہ سے رمضان کے باقی رہنے کا حکم لگایا گیا ہے۔
اگر یقینی خبر سے چاند ہونا ثابت ہوجائے تو روزہ چھوڑ دیا جائے گا۔

(6)
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رمضان سے پہلےایک روزہ رکھا۔
ممکن ہے وہ ان کی عادت کے مطابق روزہ ہو جو اتفاقاً اسی روز واقع ہوگیا ہو۔
دیکھئے: (حدیث: 1650، فائدہ: 3)
 یا ممکن ہے انھوں نے نہی کو فضیلت کے معنی میں لیا ہو۔
واللہ أعلم۔
 بہرحال صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول وعمل پر رسول اللہ ﷺ کے ارشاد مبارک کو ترجیح دیتے ہوئے یہ روزہ نہ رکھنا ہی بہتر ہے۔
نیز شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس فعل کی بابت لکھتے ہیں حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ عمل صرف ابن ماجہ میں ہے۔
اور یہ اضافہ منکر ہے۔
تفصیل کےلئے دیکھئے: (إرواء الغلیل: 10/4، رقم: 903)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1654   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 242  
´چاند دیکھ کر روزہ رکھنا اور افطار کرنا چاہیے`
«. . . 208- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ذكر رمضان، فقال: لا تصوموا حتى تروا الهلال، ولا تفطروا حتى تروه، فإن غم عليكم فاقدروا له. . . .»
. . . سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کا ذکر کیا تو فرمایا: جب تک تم (رمضان کا) چاند نہ دیکھ لو روزہ نہ رکھو اور جب تک تم (عید کا) چاند نہ دیکھ لو روزہ افطار (یعنی عید) نہ کرو اور اگر موسم ابر آلود ہو تو (تیس کی) گنتی پوری کرو . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 242]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1906، ومسلم 1080، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ ہر علاقے کے لوگ اپنا اپنا چاند دیکھیں گے۔ دُور کے علاقوں کی رویت کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔
◈ کریب مولیٰ ابن عباس نے جب سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کو بتایا کہ (سیدنا) معاویہ (رضی اللہ عنہ) نے ایک دن پہلے جمعہ کو چاند دیکھا تھا تو ابن عباس نے اس کا کوئی اعتبار نہیں کیا اور فرمایا: ہم نے تو ہفتہ کو چاند دیکھا تھا اور ہم اس کے مطابق روزے رکھتے رہیں گے حتیٰ کہ ہم چاند دیکھ لیں یا تیس دن پورے ہو جائیں۔ انہوں نے فرمایا: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اسی طرح حکم دیا تھا۔ [ديكهئے صحيح مسلم: 1087، ترقيم دارالسلام: 2528]
◈ یہ مرفوع حدیث اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ہر شہر اور اس کے قریبی علاقوں کے لوگ اپنا اپنا چاند دیکھیں گے اور یہ ضروری نہیں کہ ساری دنیا میں ایک ہی دن روزہ یا ایک ہی دن عید ہو۔
➋ حافظ ابن عبدالبر الاندلسی نے اس پر اجماع نقل کیا ہے کہ خراسان کی رویت کا اندلس میں اور اندلس کی رویت کا خراسان میں کوئی اعتبار نہیں ہے۔ دیکھئے [الاستذكار 3/283 ح592]
➌ اگر آسمان پر انتیس تاریخ کو بادل چھائے ہوں تو پھر اس مہینے کے تیس دن پورے کر لینے چاہئیں
➍ اعتبار رویت کا ہے حساب کا نہیں۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 208   

  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 243  
´چاند دیکھ کر روزہ رکھنا اور افطار کرنا چاہیے`
«. . . 282- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: الشهر تسع وعشرون، فلا تصوموا حتى تروا الهلال، ولا تفطروا حتى تروه، فإن غم عليكم فاقدروا له . . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مہینہ انتیس (29) دنوں کا ہوتا ہے لہٰذا جب تک چاند نہ دیکھو روزہ نہ رکھو اور جب تک چاند نہ دیکھ لو افطار (عید) نہ کرو۔ پھر اگر تم پر موسم ابر آلود ہو تو (تیس دن) پورے کر لو . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 243]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 1907، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ ہر علاقے کے لوگوں کو اپنا اپنا چاند دیکھ کر رمضان کے روزے رکھنا اور عید کرنی چاہئے۔
➋ مزید فقہی فوائد وفقہ الحدیث کے لئے دیکھئے: ح 208
➌ یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے کہ ساری دنیا کے لوگ ایک ہی دن روزہ رکھیں اور ایک ہی دن عید کریں۔ جغرافیائی لحاظ سے یہ ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ مکہ و مدینہ میں جب دن ہوتا ہے تو امریکہ کے بعض علاقوں میں اس وقت رات ہوتی ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 282   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 529  
´(روزے کے متعلق احادیث)`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے جب تم چاند دیکھ لو تو روزہ رکھو اور (عید کے لیے) چاند دیکھ لو تو افطار کر دو۔ اگر مطلع ابر آلود ہو تو اس کے لیے اندازہ لگا لو۔ (متفق علیہ) مسلم کے الفاظ ہیں اگر مطلع ابر آلود ہو تو پھر اس کے لیے تیس دن کی گنتی کا اندازہ رکھو۔ اور بخاری کے الفاظ ہیں پھر تیس روز کی گنتی اور تعداد پوری کرو۔ اور بخاری میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے پھر تم شعبان کے تیس دن پورے کرو۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 529]
لغوی تشریح 529:
أِذَارَأَیتُمُوہُ جب تم دیکھ لو۔ اس سے مراد چاند ہے، یعنی جب چاند تمہیں نظر آ جائے۔
فَأِن غُمَّ غُمَّ میں غین پر ضمہ اور میم پر تشدید ہے۔ صیغۂ مجہول ہے۔ مطلب یہ ھیکہ جب چاند نظر نہ آئے مخفی اور پوشیدہ رہ جائے، ابر آلودگی کی وجہ سے یا کسی ایسی ہی دوسری وجہ سے نہ دیکھا جا سکے۔
فَاقدُرُو لَہُ قدر سے امر کا صیغہ ہے۔
فَاقدُرُو لَہُ میں دال پر ضمہ اور کسرہ دونوں جائز ہیں۔ معنی یہ ہوئے کہ تیسواں روزہ بھی رکھ کر مکمل مہینے کی گنتی اور تعداد پوری کر لو۔

   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 529   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 530  
´(روزے کے متعلق احادیث)`
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ لوگوں نے چاند دیکھنا شروع کیا تو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی کہ میں نے چاند دیکھ لیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ اسے ابوداؤد نے روایت کیا ہے اور حاکم اور ابن حبان نے صحیح قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/حدیث: 530]
لغوی تشریح 530:
تَرَاءَی النَّاسُ الھِلَالَ لوگ چاند دیکھنے کے لیے اکٹھے ہوے اور چاند دیکھنے کی کوشش کرنے لگے۔ یہ حدیث اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ماہِ رمضان کا چاند دیکھنے کے لیے خبرِواحد، یعنی صرف ایک آدمی کی شھادت بھی مقبول ہے اور یہ جمھور کا مذہب ہے۔
فوائد و مسائل 530:
ان احادیث سے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ روزے کا آغاز اور اختتام دونوں چاند کے نظرآنے پر منحصر ہیں۔ چاند نظر آ جائے تو روزہ رکھا جائے اور چاند دیکھ کر ہی روزہ رکھنا بند کیا جائے۔ 2۔ اگر انتیس شعبان کو چاند نظرنہ آئے تو اس ماہ کے تیس دن پورے کیے جائیں اور اسی طرح اگر انتیس رمضان کو چاند نظرنہ آئے تو تیس روزے پورے کیے جائیں۔ 3۔ اگر گردوغبار اور ابر آلودگی کیوجہ سے ایک مقام پر چاند نظرنہ آئے مگر دوسری جگہ مطلع صاف ہونے کی بنا پر نظر آ جائے تو روزہ سارے شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں رکھا جائے گا۔ اسی طرح عید بھی منائی جائیگی بشرطیکہ ان جگہوں کا مطلع ایک ہو۔ 4۔ اگر فاصلہ اسقدر ہو کہ مطلع ہی تبدیل ہو جائے تو پھر وہاں کی رؤیت قابلِ قبول نہ ہو گی جیسا کہ جمھور علماے کرام نے کہا ہے۔ آج کل ہمارے ہاں بھی بعض لوگ روزے، عیدین اور دیگر عبادات جو چاند سے متعلق ہیں سعودی عرب کی رؤیت ہلال کے مطابق ادا کرتے ہیں اور اسی رؤیت کو اپنے لیے قابلِ عمل قرار دیتے ہیں۔ اس مسئلے کی بابت سعودی علماء اور مفتیان سے بھی استفسار کیا گیا، چنانچہ سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ ابن باز رحمہ اللہ اس کی بابت لکھتے ہیں: یہ مسئلہ سعودی عرب کے کبار علماء کی مجلس میں بھی پیش کیا گیا تو ان علماء کی راے یہ تھی کہ اس مسئلے میں راجح بات یہ ھیکہ اس میں کافی گنجائش ہے۔ اپنے ملک کے علماء کی راے کے مطابق عمل کر لیا جائے تو یہ جائز ہے۔ شیخ ابنِ باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک یہ ایک معتدل راے ہے اور اس سے اہلِ علم کے مختلف اقوال ودلائل میں تطبیق بھی ہو جاتی ہے۔ آگے چل کر انہوں نے علماء کو مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ اہلِ علم پر واجب ھیکہ ماہ کے آغاز و اختتام کے موقع پر اس مسئلے کیطرف خصوصی توجہ مبذول کریں اور ایک بات پر متفق ہو جائیں جو ان کے اجتہاد کے مطابق حق کے زیادہ قریب ہو، پھر اسی کے مطابق عمل کریں اور لوگوں تک بھی اپنی بات پہنچادیں۔ ان کے حکمرانوں اور عام مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ اس سلسلے میں اپنے علماء کی پیروی کریں اور اس مسئلے میں اختلاف نہ کریں کیونکہ اس سے لوگ مختلف گروہوں میں تقسیم ہو جائیں گے اور کثرت سے قیل و قال ہونے لگے گی۔ دیکھیے: (فتاویٰ اسلامیہ (اُردو) 158/2، 159، مطبوعہ دارالسلام)۔ 5۔ سعودی مفتیان کے فتاویٰ اور دیگر دلائل سے واضح ہوتا ہے کہ ہر ملک اپنی رؤیت اور اپنے علماء کے متفقہ فیصلے کے مطابق ہی روزے، عیدین اور دیگر عبادات بجالاے، ان شاء اللہ اسی میں خیر ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ 6۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ روزہ رکھنے کے لیے ایک معتبر و مقبول آدمی کی شہادت کافی ہے۔ جمھور علماء کا یہی مذہب ہے مگر ہلالِ عید کے لیے دو شہادتوں کا ہونا ضروری ہے۔ اس میں کسی کا اختلاف نہیں، سب متفق ہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 530   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2320  
´مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مہینہ انتیس دن کا (بھی) ہوتا ہے لہٰذا چاند دیکھے بغیر نہ روزہ رکھو، اور نہ ہی دیکھے بغیر روزے چھوڑو، اگر آسمان پر بادل ہوں تو تیس دن پورے کرو۔‏‏‏‏ راوی کا بیان ہے کہ جب شعبان کی انتیس تاریخ ہوتی تو ابن عمر رضی اللہ عنہما چاند دیکھتے اگر نظر آ جاتا تو ٹھیک اور اگر نظر نہ آتا اور بادل اور کوئی سیاہ ٹکڑا اس کے دیکھنے کی جگہ میں حائل نہ ہوتا تو دوسرے دن روزہ نہ رکھتے اور اگر بادل یا کوئی سیاہ ٹکڑا دیکھنے کی جگہ میں حائل ہو جاتا تو صائم ہو کر صبح کرتے۔ راوی کا یہ بھی بیان ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2320]
فوائد ومسائل:
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بادل اور غبار وغیرہ جیسی رکاوٹ کے باعث چاند نظر نہ آنے پر روزہ رکھ لیا کرتے تھے ممکن ہے کہ اگلا دن رمضان کا ہو۔
اور وہ اس کو شک کا دن نہ سمجھتے تھے۔
وہ شدت احتیاط کے تحت ایسا کرتے اور اس میں وہ منفرد بھی ہیں، اس لیے راجح یہی ہے کہ ابر یا غبار کے باعث چاند نظر نہ آئے تو شعبان کے تیس دن پورے کئے جائیں گے۔
اس دن کا روزہ شک کا روزہ ہو گا جو کہ ممنوع ہے۔
علامہ البانی رحمة اللہ علیہ نے حضرت ابن عمر کا یہ عمل ضعیف لکھا ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2320   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2342  
´رمضان کے چاند کی رویت کے لیے ایک شخص کی گواہی کافی ہے۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ لوگوں نے چاند دیکھنے کی کوشش کی (لیکن انہیں نظر نہ آیا) اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی کہ میں نے اسے دیکھا ہے، چنانچہ آپ نے خود بھی روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2342]
فوائد ومسائل:
جب کسی مسلمان پر کوئی واضح جرح ثابت نہ ہو تو اسے عادل شمار کیا جائے گا۔
اور رمضان کا چاند ہونے کے سلسلے میں کئی فقہا ایک عادل مسلمان کی گواہی کو کافی سمجھتے ہیں۔
اس حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔
مذکورہ دونوں حدیثین (2340-2341) سندا ضعیف ہیں۔
تاہم اس صحیح حدیث میں بھی یہی بات بیان کی گئی ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2342   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2498  
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کا تذکرہ کیا اور فرمایا: روزہ نہ رکھو حتی کہ تم چاند دیکھ لو اور اسے افطار نہ کرو، حتی کہ چاند دیکھو لو۔ اور اگر مطلع ابر آلود ہو تو اس کی مدت پوری کرو۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:2498]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(فَاقْدِرُوا لَهُ)
کا ترجمہ جمہور کے نزدیک یہ ہے مہینہ کے آغاز سے تیس دن گن لو،
بعض حضرات نے معنیٰ کیا ہے کہ پھر منازل قمر کا حساب کر کے پتہ چلا لو،
اور بعض نے معنیٰ کیا ہے پھر اس کے لیے تنگی پیدا کرو اور اسے بادلوں کے نیچے مان کر مہینہ انتیس (29)
کا بنا لو،
لیکن یہ دونوں معانی۔
آگے آنے والی صحیح حدیث کے خلاف ہیں اسی طرح حنابلہ کا مطلع صاف ہو آسمان پر بادل یا گردوغبار نہ ہونے کی صورت میں تو نظر نہ آنے کی صورت میں مہینہ تیس کا ماننا اور بادل یا گردوغبار ہو تو پھر مہینہ انتیس کا ماننا۔
صحیح حدیث کے منافی ہے۔
اس لیے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ۔
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اگر کوئی گردوغبار کی صورت میں رمضان فرض کر کے روزہ رکھ لے گا۔
تو وہ روزہ نہیں ہو گا۔
حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے جمہور کا مؤقف قبول کیا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2498   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1900  
1900. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا: جب تم (رمضان کا) چاند دیکھوتو روزہ دیکھو اور جب تم شوال کا چاند دیکھو تو روزہ موقوف کرو۔ اگر مطلع ابر آلود ہوتو اس کے لیے اندازہ کرلو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1900]
حدیث حاشیہ:
مقصد یہ ہے کہ رمضان شریف کے روزے شروع کرنے اور عید الفطر منانے ہر دو کے لیے رویت ہلال ضروری ہے، اگر ہر دو مرتبہ 29 تاریخ میں رویت ہلال نہ ہو تو تیس دن پورے کرنے ضروری ہیں، عید کے چاند میں لوگ بہت سی بے اعتدالیاں کر جاتے ہیں جو نہ ہونی چاہئیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1900   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1906  
1906. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان المبارک کا ذکر کیا اور فرمایا: روزہ نہ رکھوحتیٰ کہ چاند دیکھ لو اور اس وقت تک روزے رکھنا بند نہ کروحتیٰ کہ چاند دیکھ لو۔ پھر اگر تم پر بادل چھا جائے تو اندازہ(کرکے مہینہ پورا) کرو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1906]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ ماہ شعبان کی 29 تاریخ کو چاند میں شک ہو جائے کہ ہوا یا نہ ہوا تو اس دن روزہ رکھنا منع ہے بلکہ ایک حدیث میں ایسا روزہ رکھنے والوں کو حضرت ابوالقاسم ﷺ کا نافرمان بتلایا گیا ہے۔
اسی طرح عید کا چاند بھی اگر29 تاریخ کو نظر نہ آئے یا بادل وغیرہ کی وجہ سے شک ہو جائے تو پورے تیس دن روزے رکھ کر عید منانی چاہئے۔
حجۃ الہند حضرت شاہ ولی اللہ مرحوم فرماتے ہیں چونکہ روزے کا زمانہ قمری مہینہ کے ساتھ رویت ہلال کے اعتبار سے منضبط تھا اور وہ کبھی تیس دن اور کبھی انتیس دن کا ہوتا ہے لہٰذا اشتباہ کی صور ت میں اس اصل کی طرف رجوع کرنا ہوا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1906   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1907  
1907. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مہینہ انتیس رات کا بھی ہوتا ہے، لہذا تم چاند دیکھ لو تو روزہ رکھو اور اگر مطلع ابر آلود ہوتو تیس دن کی گنتی پوری کرو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1907]
حدیث حاشیہ:
ملا علی قاری ؒ فرماتے ہیں:
قال في المواهب و هذا مذهبنا و مذهب مالك و أبي حنفیة و جمهور السلف و الخلف و قال بعضهم أن المراد تقدیر منازل القمر و ضبط حساب النجوم حتی یعلم أن الشهر ثلاثون أو تسع و عشرون و هذا القول غیر سدید فإن قول المنجمین لا یعتمد علیه۔
(لمعات)
یعنی جمہور علمائے سلف اور خلف کا اسی حدیث پر عمل ہے بعض لوگوں نے حدیث بالا میں لفظ فاقدروا سے حساب نجوم کا ضبط کرنا مرا د لیا ہے یہ قول درست نہیں ہے اور اہل نجوم کا قول اعتماد کے قابل نہیں ہے۔
آج کل تقویم میں جو تاریخ بتلائی جاتی ہے اگرچہ ان کے مرتب کرنے والے پوری کوشش کرتے ہیں مگر شرعی امور کے لیے محض ان کی تحریرات پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا خاص طور پر رمضان اور عیدین کے لیے رویت ہلال یا دو معتبر گواہوں کی شہادت ضروری ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1907   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1900  
1900. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا: جب تم (رمضان کا) چاند دیکھوتو روزہ دیکھو اور جب تم شوال کا چاند دیکھو تو روزہ موقوف کرو۔ اگر مطلع ابر آلود ہوتو اس کے لیے اندازہ کرلو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1900]
حدیث حاشیہ:
(1)
رمضان کے چاند کا اندازہ کرنے کا یہ مطلب ہے کہ اس کے تیس دن پورے کر لو۔
امام بخاری ؒ یہ حدیث اسی مقصد کے لیے لائے ہیں کہ لفظ رمضان لفظ "شهر" کے بغیر استعمال ہو سکتا ہے لیکن اس حدیث میں سرے سے لفظ رمضان استعمال ہی نہیں ہوا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ امام بخاری ؒ نے عقیل اور یونس کے حوالے سے جو معلق روایت ذکر کی ہے اس میں ہلال رمضان کے الفاظ ہیں اور یہی ان کا محل استشہاد ہے۔
اس روایت کو علامہ اسماعیلی نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔
زہری کی روایت کے علاوہ بھی ایک حدیث میں ہلال رمضان کا لفظ استعمال ہوا ہے۔
(2)
بہرحال امام بخاری کا مقصد یہ ہے کہ رمضان یا شہر رمضان کہنے میں کوئی کراہت نہیں کیونکہ دونوں طرح سے احادیث منقول ہیں۔
بعض حضرات کا خیال ہے کہ اگر لفظ شہر پر کوئی قرینہ موجود ہو تو جائز ہے بصورت دیگر ناجائز لیکن یہ موقف مرجوح ہے۔
(فتح الباري: 146/4)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1900