5. باب: رمضان سے ایک روز پہلے روزہ رکھنے کی ممانعت اگر کوئی شخص پہلے سے روزہ رکھتا چلا آیا ہو تو جائز ہے۔
Chapter: What was narrated concerning the prohibition of anticipating Ramadan by fasting before it, except for one who has a habitual pattern of fasting and it coincides with that
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب نصف شعبان ہو جائے، تو روزے نہ رکھو، جب تک کہ رمضان نہ آ جائے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یہ بات عام امت کے لئے ہے، نبی اکرم ﷺ کے بارے میں آتا ہے کہ آپ شعبان کے روزوں کو رمضان سے ملا دیا کرتے تھے کیونکہ آپ کو روحانی قوت حاصل تھی اس لئے روزہ آپ کے لئے کمزوری کا سبب نہیں بنتا تھا، لیکن امت کے لئے حکم یہ ہے کہ وہ نصف ثانی میں روزہ نہ رکھیں تاکہ ان کی قوت و توانائی رمضان کے روزوں کے لئے برقرار رہے۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1651
اردو حاشہ: فائده: گزشتہ حدیث سے رمضان سے پہلے بعض روزے رکھنے کا جواز ظاہر ہوتا ہے۔ لہٰذا اس حدیث کا مطلب یہ ہوگا کہ رمضان قریب آ جانے پر نفلی روزوں سے اجتناب بہتر ہے۔ تاکہ نفل اور فرض روزوں میں امتیاز ہوجائے۔ اور کوئی شخص اس قدر کمزو ر نہ ہوجائے۔ کہ رمضان کے روزوں میں خلل پڑنے کا اندیشہ ہو۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1651
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 563
´نفلی روزے اور جن دنوں میں روزہ رکھنا منع ہے` سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”جب شعبان آدھا ہو جائے تو روزہ نہ رکھو۔“ اسے پانچوں نے روایت کیا ہے اور امام احمد رحمہ اللہ نے اسے منکر کہا ہے۔ [بلوغ المرام/حدیث: 563]
563 فوائد و مسائل: ➊ یہ ممانعت اس لیے ہے کہ شعبان کے آخری دنوں میں روزے رکھ کر ضعف و کمزوری لاحق نہ ہو جائے اور رمضان المبارک کے روزے رکھنے کے لیے قوت بحال رہے۔ یہ نہی تنزیہی ہے کیونکہ یہ ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کے آخری دونوں میں بھی روزہ رکھ لیتے تھے۔ ➋ امام احمد رحمہ اللہ نے جو اس حدیث کو منکر کہا ہے تو اس بنا پر نہیں کہ اس کا کوئی راوی ضعیف ہے بلکہ اس وجہ سے کہ اسے بیان کرنے میں علاء بن عبدالرحمٰن منفرد ہیں اور امام احمد تفرد ثقہ پر بھی منکر کا لفظ بول دیتے ہیں۔ ➌ اس ممانعت سے وہ روزے مستشنٰی ہیں جو عادتاً رکھے جاتے ہیں، مثلاً: جو شخص ہر سوموار اور جمعرات کا روزہ رکھتا ہے تو اس کے لیے شعبان کے بعد بھی ان دونوں میں روزہ رکھنا جائز ہے۔ مزید تفصیل کے لیے فتح الباری وغیرہ ملاحظہ فرمائیں۔ ٭
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 563
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2337
´اواخر شعبان کے روزے کی کراہت کا بیان۔` عبدالعزیز بن محمد کہتے ہیں کہ عباد بن کثیر مدینہ آئے تو علاء کی مجلس کی طرف مڑے اور (جا کر) ان کا ہاتھ پکڑ کر انہیں کھڑا کیا پھر کہنے لگے: اے اللہ! یہ شخص اپنے والد سے اور وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب نصف شعبان ہو جائے تو روزے نہ رکھو“، علاء نے کہا: اے اللہ! میرے والد نے یہ حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے واسطے سے مجھ سے بیان کی ہے اور انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے ثوری، شبل بن علاء، ابو عمیس اور زہیر بن محمد نے علاء سے روایت کیا، نیز۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2337]
فوائد ومسائل: نصف شعبان کے بعد روزوں کی کراہت ایسے لوگوں کے لیے ہے جو ان دنوں کے روزوں کے عادی نہ ہوں۔ اگر عادت ہو تو رکھ لینے میں حرج نہیں، نیز نہی سے مقصد یہ ہے کہ رمضان میں کمزوری کا احساس نہ ہو۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2337
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 738
´رمضان کی تعظیم میں شعبان کے دوسرے نصف میں روزہ رکھنے کی کراہت۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب آدھا شعبان رہ جائے تو روزہ نہ رکھو“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 738]
اردو حاشہ: 1؎: شعبان کے نصف ثانی میں روزہ رکھنے کی ممانعت امت کو اس لیے ہے تاکہ رمضان کے روزے کے لیے قوّت و توانائی برقرار رہے، رہے نبی اکرم ﷺ اس ممانعت میں داخل نہیں اس لیے کہ آپ کے بارے میں آتا ہے کہ آپ شعبان کے روزے کو رمضان سے ملا لیا کرتے تھے چونکہ آپ کو روحانی قوت حاصل تھی اس لیے روزے آپ کے لیے کمزوری کا سبب نہیں بنتا تھا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 738