(حديث مرفوع) حدثنا عثمان بن محمد، حدثنا جرير، عن مطرف، عن ابي إسحاق، عن ابي بردة، عن عبد الله بن عمرو، قال: قلت: يا رسول الله، في كم اختم القرآن؟ قال: "اختمه في شهر"، قلت: يا رسول الله، انا اطيق، قال:"اختمه في خمسة وعشرين"، قلت: إني اطيق، قال:"اختمه في عشرين"، قلت: إني اطيق، قال:"اختمه في خمس عشرة"، قلت: إني اطيق، قال:"اختمه في عشر"، قلت: إني اطيق، قال:"اختمه في خمس"، قلت: إني اطيق، قال:"لا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فِي كَمْ أَخْتِمُ الْقُرْآنَ؟ قَالَ: "اخْتِمْهُ فِي شَهْرٍ"، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أنا أُطِيقُ، قَالَ:"اخْتِمْهُ فِي خَمْسة وَعِشْرِينَ"، قُلْتُ: إِنِّي أُطِيقُ، قَالَ:"اخْتِمْهُ فِي عِشْرِينَ"، قُلْتُ: إِنِّي أُطِيقُ، قَالَ:"اخْتِمْهُ فِي خَمْسَ عَشْرَةَ"، قُلْتُ: إِنِّي أُطِيقُ، قَالَ:"اخْتِمْهُ فِي عَشْرٍ"، قُلْتُ: إِنِّي أُطِيقُ، قَالَ:"اخْتِمْهُ فِي خَمْسٍ"، قُلْتُ: إِنِّي أُطِيقُ، قَالَ:"لَا".
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں کتنے دن میں قرآن پاک ختم کروں؟ فرمایا: ”ایک مہینے میں“، میں نے عرض کیا: مجھے اس سے زیادہ کی طاقت ہے؟ فرمایا: ”پچیس دن میں ختم کر لو“، میں نے عرض کیا: میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں، فرمایا: ”پندرہ دن میں ختم کرو“، میں نے عرض کیا: مجھے اس سے زیادہ کی طاقت ہے، فرمایا: ”دس دن میں ختم کرو“، میں نے کہا: اس سے زیادہ کی میں طاقت رکھتا ہوں، فرمایا: ”پانچ دن میں ختم کرو“، میں نے کہا: مجھے اس سے زیادہ کی طاقت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس سے کم میں نہیں۔“
وضاحت: (تشریح احادیث 3511 سے 3518) اس سے معلوم ہوا کہ کم سے کم پانچ دن میں قرآن ختم کرنا چاہے، بعض روایاتِ صحیحہ میں تین دن کا بھی ذکر ہے، کما سیأتی، لیکن ایک مہینے سے زیادہ ختمِ قرآن میں نہیں لگنا چاہے، ہم میں سے کتنے ایسے ہیں جو صرف رمضان میں قرآن پاک پڑھتے اور سنتے ہیں، اور پورے سال تلاوتِ کلام پاک سے غافل رہتے ہیں۔ «(هدانا اللّٰه وإياهم، آمين)»
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف مطرف بن طريف متأخر السماع من أبي إسحاق السبيعي ولكن الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 3529]» اس روایت کی سند میں ضعف ہے، لیکن یہ حدیث دوسری سند سے صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن ماجه 1346]، [نسائي 2390]، [ابن حبان 756]، [ابن كثير فى فضائل القرآن 247]۔ صحیحین میں صرف روزے کا ذکر ہے، قرآن پڑھنے کا نہیں۔ دیکھئے: [بخاري 1974]، [مسلم 1159]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف مطرف بن طريف متأخر السماع من أبي إسحاق السبيعي ولكن الحديث متفق عليه