الفتن و اشراط الساعة والبعث فتنے، علامات قیامت اور حشر फ़ितने, क़यामत की निशानियां और क़यामत का दिन علامات قیامت “ क़यामत की निशानियां ”
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مجلس میں تشریف فرما تھے، جبریل علیہ السلام آ کر آپ کے سامنے یوں بیٹھے کہ اپنی ہتھیلیاں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنوں پر رکھ دیں اور کہا: اے اللہ رسول! مجھے اسلام کے بارے میں بتائیں۔۔۔۔ (روای نے طویل حدیث ذکر کی، اس میں یہ الفاظ بھی تھے:) انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے بتائیں کہ قیامت کب آئے گی؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سبحان اللہ! پانچ امور کا تعلق علم غیب سے ہے، صرف اللہ تعالیٰ ان کو جانتا ہے، (وہ پانچ چیزیں اس آیت میں مذکور ہیں:) «إِنَّ اللَّـهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ» ”بیشک اللہ تعالیٰ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے، وہی بارش نازل فرماتا ہے اور ماں کے پیٹ میں جو ہے اسے جانتا ہے، کوئی بھی نہیں جانتا کہ کل کیا کچھ کرے گا، نہ کسی کو یہ معلوم ہے کہ کس زمین میں مرے گا (یاد رکھو کہ) اللہ تعالیٰ ہی پورے علم والا اور صحیح خبروں والا ہے۔“ (۳۱-لقمان:۴۵) ہاں اگر تم چاہتے ہو تو میں تمہیں قیامت سے پہلے والی علامت کے بارے میں آگاہ کر دیتا ہوں۔“ انہوں نے کہا: جی ہاں، اے اللہ کے رسول! مجھے بیان کیجئیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم دیکھو گے کہ لونڈی اپنے آقا کو جنم دے گی، بکریوں کے چرواہے (عالیشان) عمارتوں میں غرور تکبر کریں گے۔ ننگے پاؤں، بھوکے اور فقیر افراد لوگوں کے سردار بن جائیں گے۔ یہ قیامت کی علامتیں اور شرطیں ہیں۔ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول بکریوں کے چرواہوں، ننگے پاؤں، بھوکوں اور فقیروں سے کون لوگ مراد ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عرب لوگ۔“
طارق بن شہاب کہتے ہیں: ہم سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، ایک آدمی آیا اور کہا: اقامت کہی جا چکی ہے، وہ کھڑے ہوئے اور ہم بھی کھڑے ہو گئے، جب ہم مسجد میں داخل ہوئے تو ہم نے دیکھا کہ لوگ مسجد کے اگلے حصے میں رکوع کی حالت میں ہیں۔ انہوں نے ”اللہ أکبر“ کہا اور (صف تک پہنچنے سے پہلے ہی) رکوع کیا، ہم نے بھی رکوع کیا، پھر ہم رکوع کی حالت میں چلے (اور صف میں کھڑے ہو گئے) اور جیسے انہوں نے کیا ہم کرتے رہے۔ ایک آدمی جلدی میں گزرا اور کہا: ابو عبدالرحمٰن! السلام علیکم۔ انہوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول نے سچ کہا۔ جب ہم نے نماز پڑھ لی اور واپس آ گئے، وہ اپنے اہل کے پاس چلے گئے۔ ہم بیٹھ گئے اور ایک دوسرے کو کہنے لگے: آیا تم لوگوں نے سنا ہے کہ انہوں نے اس آدمی کو جواب دیتے ہوئے کہا: اللہ نے سچ کہا اور اس کے رسولوں نے (اس کا پیغام) پہنچا دیا؟ تم میں سے کون ہے جو ان سے ان کے کئے کے بارے میں سوال کرے؟ طارق نے کہا میں سوال کروں گا۔ جب وہ باہر آئے تو انہوں نے سوال کیا۔ جواباً انہوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت سے پہلے مخصوص لوگوں کو سلام کہا جائے گا اور تجارت عام ہو جائے گی، حتیٰ کہ بیوی تجارتی امور میں اپنے خاوند کی مدد کرے گی، نیز قطع رحمی، جھوٹی گواہی، سچی شہادت کو چھپانا اور لکھائی پڑھائی (بھی عام ہو جائے گی)۔“
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک بھیڑئیے نے بکری پر حملہ اور اس کو پکڑ لیا۔ چرواہا نے اس کا تعاقب کیا اور اس سے بکری چھین لی۔ بھیڑیا پچھلی ٹانگوں کو زمین پر پھیلا کر اور اگلی ٹانگوں کو کھڑا کر کے اپنی دم پر بیٹھ گیا اور کہنے لگا: کیا تو اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتا؟ اللہ نے مجھے جو رزق عطا کیا تھا، تو نے وہ چھین لیا ہے؟ چرواہا کہنے لگا: ہائے تعجب! بھیڑیا ہے، اپنی دم پر بیٹھا ہے اور انسانوں کی طرح گفتگو کر رہا ہے۔ اتنے میں بھیڑیا پھر بولا اور کہنے لگا: کیا میں تجھے اس سے تعجب انگیز بات نہ بتلاؤں؟ محمد صلی اللہ علیہ وسلم یثرب (مدینہ) میں آ چکے ہیں اور ماضی کی خبریں بتاتے ہیں۔ (یہ سن کر) چرواہا اپنی بکریوں کو ہانکتے ہانکتے مدینہ میں داخل ہوا، بکریوں کو کسی گوشے میں جمع کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صورتحال سے آگاہ کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اور لوگوں کو جمع کرنے کے لیے «الصلاة جامعة» کی صدا بلند کی گئی، (لوگ جمع ہو گئے اور) آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے پاس تشریف لائے اور چرواہے کو سارا واقعہ بیان کرنے کا حکم فرمایا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا: ”اس نے سچ کہا، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! قیامت کے برپا ہونے سے پہلے درندے لوگوں سے باتیں کریں گے، آدمی اپنی لاٹھی کی نوک اور جوتے کے تسمے سے ہم کلام ہو گا اور اس کی ران اسے بتلائے گی کی اس کی بیوی نے اس کے بعد کیا کچھ کیا۔“
سیدنا سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک پہاڑ اپنی جگہ سے زائل نہیں ہو جائیں گے اور تم ایسے بڑے بڑے امور نہ دیکھ لو گے جو تم پہلے نہیں دیکھا کرتے تھے۔“
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس ایک کوفی آدمی بیٹھا ہوا تھا، اس نے مختار سے احادیث بیان کرنا شروع کر دیں۔ سیدنا عبداللہ نے کہا: اگر بات ایسے ہی ہے جیسے تو کہہ رہا ہے تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”قیامت سے پہلے تیس انتہائی جھوٹے اور کذاب افراد ہوں گے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی، جب تک لوگ اپنے گھروں کو اسٹیج کی طرح مزین نہیں کریں گے۔“
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی، جب ایسے نہیں ہو گا کہ لوگ گدھوں کی طرح راستوں میں باہم جفتی کریں گے۔“ میں نے کہا: کیا ایسے بھی ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” ہاں، ضرور ہو گا۔ “
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس وقت تک شب و روز کا سلسلہ ختم نہیں ہو گا، جب تک لات و عزیٰ کی عبادت نہیں کی جائے گی۔“ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اے اللہ کے رسول! جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی: «هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ» (۹-التوبة: ٣٣) ”اسی نے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا ہے کہ اسے دوسرے تمام مذہبوں پر غالب کر دے، اگرچہ مشرک برا مانیں۔“ تو مجھے گمان ہوا کہ یہ دین اب مکمل رہے گا (اور کوئی خرابی پیدا نہیں ہو گی)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تک اللہ چاہے گا، دین مکمل رہے گا۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شب و روز کا سلسلہ اس وقت تک ختم نہیں ہو گا، جب تک جہجاہ نامی غلام بادشاہ نہیں بنے گا۔“
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت سے قبل تم ایسے لوگوں سے قتال کرو گے جن کے جوتے بالوں کے ہوں گے اور یہی لوگ ہیں مسلمانوں سے لڑنے والے۔“ یہ حدیث سیدنا ابوہریرہ، سیدنا عمرو بن تغلب اور سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہم سے مروی ہے۔
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہو گی جب تک تم چھوٹی آنکھوں اور چوڑے چہروں والوں سے قتال نہ کر لو گے، گویا کہ ان کی آنکھیں مکڑی کی سیاہی کی طرح ہوں گی اور ان کے چہرے گویا کہ تہ بر تہ چڑھائی ہوئی ڈھالیں ہیں، وہ بالوں کے جوتے پہنیں گے، چمڑے کی ڈھالیں استعمال کریں گے اور اپنے گھوڑوں کو کھجوروں کے ساتھ باندھیں گے۔“
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہو گی، جب تک بیت اللہ کا حج چھوڑ نہ دیا جائے۔“
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک آدمی اپنے پڑوسی، اپنے بھائی اور اپنے باپ کو قتل نہیں کرے گا۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہو گی جب تک ایسا نہ ہو کہ آدمی کسی قبر کے پاس سے گزرے اور اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرنے کے شوق کی بناء پر کہے گا: کاش میں اس کی جگہ پر ہوتا۔“
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہو گی، جب تک ایسے نہیں ہو گا کہ عام بارش برسے گی لیکن زمین کوئی (کھیتی) نہیں اگائے گی۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی، جب تک ایسے نہیں ہو گا کہ بارش برسے گی اور کوئی گارے والا گھر نہیں بچ سکے گا اور اس سے نہیں بچے گا مگر بالوں والا گھر۔ “
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے قریب (ہونے کی علامت یہ بھی ہے کہ) چاند بڑا ہو جائے گا، جب ایک رات کا چاند نظر آئے گا تو کہا جائے گا کہ یہ تو دو راتوں کا ہے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت اس وقت قائم ہو گی جب فتنے ظاہر ہوں گے، جھوٹ عام ہو جائیں گے، وقت جلدی گزرے گا اور «هرج» زیادہ ہو گا۔“ کہا گیا: «هرج» کے کیا معانی ہیں؟ فرمایا: ”قتل۔ “
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت اس وقت تک برپا نہیں ہو گی جب تک عربوں کی سرزمین سبزہ زاروں اور نہروں کی صورت اختیار نہیں کر لے گی۔“
سیدنا عبداللہ اور سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت سے قبل ایسے ایام بھی ہوں گے کہ ان میں جہالت عام ہو جائے گی، علم کا فقدان ہو جائے گا اور بکثرت قتل ہوں گے۔ ” سیدنا ابوموسیٰ کہتے ہیں: «هرج» حبشی زبان کا لفظ ہے، اس کے معانی ”قتل“ کے ہیں۔
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت سے پہلے «هرج» ہو گا۔“ کسی نے پوچھا: «هرج» کا کیا معنی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کا معنی قتل ہے، (ذہن نشین کر لو کہ) اس سے مراد تمہارا مشرکوں کو قتل کرنا نہیں ہے، بلکہ آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرنا ہے، (اور بات یہاں تک جا پہنچے گی کہ) آدمی اپنے پڑوسی کو، بھائی کو، چچا کو اور چچا زاد کو قتل کر ڈالے گا۔“ صحابہ نے کہا: کیا اس وقت ہم میں عقل باقی ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس زمانے والوں کی عقلیں سلب کر لی جائیں گی وہ بیوقوف ہوں گے، ان کی اکثریت اپنے آپ کو بزعم خود کسی حقیقت پر خیال کرے گی، لیکن وہ کسی حقیقت پر نہیں ہوں گے۔“ ابوموسیٰ نے کہا اس ذ ات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر ایسے ایام ہم کو پا لیں تو ان سے راہ فرار کا ایک ہی طریقہ ہو گا کہ جیسے ہم داخل ہوئے ایسے ہی وہاں سے نکل آئیں، نہ کسی کا خون بہائیں اور نہ کسی کا مال چھینیں۔
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے قریب ہونے کی علامت یہ ہے کہ بدترین لوگوں کو اعلیٰ مناصب دیئے جائیں گے، شریف لوگوں کو ذلیل سمجھا جائے گا، لوگ بڑی بڑی باتیں (یعنی بڑکیں) ماریں گے، عمل محدود ہو جائے گا اور لوگوں میں «مثناة» عام ہو گی، کوئی بھی اس کا انکار نہیں کر سکے گا۔“ کہا گیا کہ «مثناة» سے کیا مراد ہے؟ فرمایا: ”جو چیز قرآنی (علوم) کے علاوہ لکھی جائے۔ “
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں پر عنقریب فریبی و مکاری والا زمانہ آئے گا، اس میں جھوٹے کو سچا اور سچے کو جھوٹا سمجھا جائے گا اور خائن کو امین اور امانتدار کو خائن قرار دیا جائے گا اور «رويبضه» قسم کے لوگ ( عوام الناس کے امور سے متعلقہ) گفتگو کریں گے۔“ پوچھا گیا کہ «رويبضه» سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”معمولی اور کم عقل لوگ جو عوام الناس کے امور پر بحث و مباحثہ کریں گے۔“
اسود بن یزید کہتے ہیں: مسجد میں نماز کے لیے اقامت کہہ دی گئی، ہم سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسجد کی طرف چل پڑے، لوگ رکوع کی حالت میں تھے، سیدنا عبداللہ نے (صف تک پہنچنے سے قبل ہی) رکوع کر لیا اور ہم بھی رکوع کے لیے جھک گئے اور رکوع کی حالت میں چل کر (صف میں کھڑے ہو گئے)۔ ایک آدمی سیدنا عبداللہ کے سامنے سے گزرا، اس نے کہا: ابو عبدالرحمٰن! السلام علیکم۔ سیدنا عبداللہ نے رکوع کی حالت میں ہی کہا: اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا۔ جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو بعض افراد نے سوال کیا: جب اس آدمی نے آپ پر سلام کہا تو آپ نے یہ کیوں کہا: اللہ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا؟ انہوں نے جواباََ کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”یہ چیز بھی علامات قیامت میں سے ہے کہ سلام معرفت کی بنا پر ہو گا۔“ اور ایک روایت میں ہے: ”ایک آدمی دوسرے کو سلام تو کہے گا، لیکن معرفت کی بنا پر کہے گا۔“
سیدنا عمرو بن تغلب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ چیز علامات قیامت میں سے ہے کہ مال پھیل جائے گا، جہالت عام ہو جائے گی، فتنے ابھر پڑیں گے، تجارت عام ہو جائے گی اور علم (یعنی پڑھائی لکھائی) عام ہو گی۔“
سیدنا ابوامیہ جمحی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ چیز علامات قیامت میں سے ہے کہ حقیر و ذلیل لوگوں کے پاس علم تلاش کیا جائے گا۔ “
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ چیز بھی علامات قیامت میں سے ہے کہ آدمی دو رکعت نماز پڑھے بغیر مسجد سے گزر جائے گا۔“
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بدزبانی، فحش گوئی، قطع رحمی، خائن کو امین اور امانتدار کو خائن سمجھنا علامات قیامت میں سے ہے۔“
قعقاع بن ابوحدرد اسلمی کی بیوی بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر ارشاد فرماتے ہوئے سنا: ” لوگو! جب تم قریب ہی کسی آدمی کے دھنسنے کے بارے میں سنو تو (اس کا مطلب یہ ہو گا کہ گویا) قیامت سایہ فگن ہو چکی ہے۔“
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے قبل (لوگوں کی) شکلیں بگڑیں گی، انہیں دھنسایا جائے گا اور ان پر سنگ باری کی جائے گی۔“
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت سے پہلے سود، زنا اور شراب عام ہو جائے گا۔“
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت سے پہلے اندھیری رات کے ٹکڑوں کی طرح فتنے نمودار ہوں گے، آدمی بوقت صبح مومن ہو گا اور شام کو کافر اور بوقت شام مومن ہو گا اور صبح کو کافر، لوگ اپنے دین کو دنیوی سازو سامان کے عوض فروخت کر دیں گے۔“
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”علامات قیامت چھ ہیں: میرا فوت ہونا، بیت المقدس کا فتح ہونا، بکری کے سینے کی بیماری کی طرح موت کا لوگوں کو ڈبوچنا، ہر مسلمان کے گھر کو متاثر کرنے والے فتنے کا ابھرنا، آدمی کا ہزار دینار کو خاطر میں نہ لانا (یعنی کم سجھنا) اور روم کا غداری کرنا، وہ اسی جھنڈوں کے نیچے چلیں گے اور ہر جھنڈے کے نیچے بارہ ہزار افراد ہوں گے۔“
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قیامت کے بارے میں سوال کیا گیا۔ آپ نے جواباً یہ آیت پڑھی: ”اس کا علم میرے رب ہی کے پاس ہے، اس کے وقت پر اس کو سوائے اللہ کے کوئی اور ظاہر نہ کرے گا۔“ (سورۂ اعراف: ۱۸۷) پھر فرمایا: ”البتہ میں تمہارے لیے اس کی علامتوں اور اس سے پہلے امور کی نشاندہی کر دیتا ہوں۔ اس سے پہلے فتنہ اور ہرج ہو گا۔“ صحابہ نے کہا: ہمیں فتنے کے مفہوم کا تو علم ہے، ہرج سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ حبشی زبان کا لفظ ہے، اس کے معنی ”قتل“ کے ہیں، اور (قیامت سے پہلے) لوگوں میں اجنبیت پائی جائے گی، کوئی کسی کو نہیں پہچانے گا۔“
|