الفتن و اشراط الساعة والبعث فتنے، علامات قیامت اور حشر फ़ितने, क़यामत की निशानियां और क़यामत का दिन زمانہ فتن کے احکام “ फ़ितनों के समय के नियम ”
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فتنوں میں اپنی کمانیں توڑ دینا اور ان کی تانتیں کاٹ دینا، اپنے گھروں کے اندر ہی رہنا اور آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں میں سے نیک بیٹے کی طرح (جنگ و جدل سے دست کش) ہو جانا۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عبداللہ بن عمرو! اس وقت تیرا کیا بنے گا جب تو گھٹیا اور ادنی درجے کے لوگوں میں باقی رہ جائے گا، ان کے عہد و پیمان اور امانت و دیانت میں کھوٹ پیدا ہو جائے گی، وہ اختلاف و افتراق میں پڑ جائیں گے اور وہ اس طرح خلط ملط ہو جائیں گے۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کرتے ہوئے اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں داخل کر دیا۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ مجھے ایسے حالات میں کیا حکم دیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی فکر کرنا اور عوام الناس (کے معاملات میں) نہ پڑنا۔“
عمرو بن وابصہ اسدی اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں: میں کوفہ میں اپنے گھر میں تھا، اچانک مجھے گھر کے دروازے سے آواز آئی: السلام علیکم، میں اندر آ جاؤں؟ میں نے کہا: وعلیکم السلام، آ جاؤ۔ جب وہ اندر آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تھے۔ میں نے کہا: ابو عبدالرحمٰن! آیا یہ ملاقات کا وقت ہے؟ یہ سخت دوپہر کا وقت تھا۔ انہوں نے کہا: دن نہیں گزر رہا تھا، مجھے خیال آیا کہ چلو گفتگو کر لیتے ہیں۔ پھر انہوں نے ایک دوسرے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث بیان کرنا شروع کر دیں، انہوں نے یہ حدیث بھی بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فتنوں کا (ایسا زمانہ شروع ہو گا کہ) سونے والا لیٹنے والے سے بہتر ہو گا، لیٹنے والا بیٹھنے والے سے بہتر ہو گا، بیٹھنے والا کھڑا ہونے والے سے بہتر ہو گا، کھڑا ہونے والا چلنے والے سے بہتر ہو گا، چلنے والا سوار سے بہتر ہو گا اور سوار دوڑنے والے سے بہتر ہو گا۔ ان کے سارے کے سارے مقتولین جہنم میں جائیں گے۔“ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ایسے کب ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قتل و غارت گری کے ایام میں ایسے ہو گا۔“ میں نے کہا: قتل کے ایام کب ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب آدمی اپنے ہم نشین سے خوفزدہ ہو گا۔“ میں نے کہا: اگر میں ایسا زمانہ پا لوں تو آپ کا میرے حق میں کیا حکم ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے آپ کو اور اپنے ہاتھ کو قابو میں رکھنا اور اپنے گھر کے اندر رہنا۔ “ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اگر کوئی (فتنے باز) میرے گھر کے اندر بھی گھس آیا تو مجھے کیا کرنا ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تو اپنے کمرے میں داخل ہو جانا۔“ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اگر وہ میرے کمرے میں گھس آئے تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی سجدہ گاہ میں داخل ہو جانا اور اس طرح کر لینا، پھر آپ نے دائیں ہاتھ سے کلائی کو پکڑ لیا، اور کہنا: میرا رب اللہ ہے، (اسی حالت پر برقرار رہنا) حتیٰ کہ تو مر جائے۔“
سبیع کہتے ہیں: لوگوں نے مجھے کچھ جانور خریدنے کے لیے پانی کے گھاٹ سے کوفہ کی طرف بھیجا، ہم ایک کوڑا خانہ کے پاس سے گزرے، ہم نے ایک آدمی دیکھا، اس کے ارداگرد لوگ جمع تھے، میرا دوست جانوروں کی طرف چلا گیا اور میں اس آدمی کے پاس آ گیا، میں کیا دیکھتا ہوں کہ وہ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ تھے، وہ کہہ رہے تھے: صحابہ کرام، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر کے بارے میں پوچھتے تھے اور میں شر کے بارے میں سوال کرتا تھا۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا اس خیر (یعنی اسلام) کے بعد پھر وہی شر منظر عام پر آئے گی جو اس سے پہلے تھی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“ میں نے کہا: اس سے بچنے کا کیا طریقہ ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تلوار۔“ میں نے کہا: پھر کیا ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لیکن بباطن لڑائی ہو گی اور ظاہری صلح ہو گی، اس کے بعد ضلالت و گمراہی کی طرف پکارنے والے منظر عام پر آئیں گے، اگر ان دنوں میں تجھے کوئی خلیفہ نظر آ جائے تو اسے لازم پکڑ لینا، اگرچہ وہ تیرے جسم کو اذیت پہنچائے اور تیرا مال سلب کر لے اور اگر کوئی خلیفہ نظر نہ آئے تو زمین ( کے کسی گوشہ کی طرف) بھاگ جانا، اگرچہ تجھے اس حال میں موت آ جائے کہ تو درخت کے تنے کے ساتھ چمٹا ہوا ہو۔“ میں نے کہا: پھر کیا ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر دجال نمودار ہو گا . . . . .“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: ”جب تم پر اندھیری رات کے ٹکڑوں کی طرح فتنے ٹوٹ پڑیں گے تو ان سے زیادہ نجات حاصل کرنے والے (دو قسم کے لوگ ہوں گے:) (۱) (پہاڑوں کی) بلند و بالا چوٹیوں پر نکل جانے والا آدمی جو بکریوں کے دودھ کو خوراک بنائے گا اور (۲) وہ آدمی جو شاہراہ حیات سے ہٹ کر اپنے گھوڑے کی لگام تھام کر (کسی سرحد پر فروکش ہو کر) اپنے تلوار کے مال غنیمت کے ذریعے روزی کمائے گا۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اندھیری رات کے ٹکڑوں کی طرح تمہیں فتنے ڈھانپ لیں گے، نجات پانے والا آدمی وہ ہو گا جو (پہاڑوں وغیرہ کی) بلند و بالا چوٹیوں پر فروکش ہو کر بکریوں کے دودھ پر گزارا کرتا رہے گا یا وہ آدمی جو اپنے گھوڑے کی لگام تھام کر شاہراہ حیات سے پرے (مصروف جہاد ہو گا) اور اپنی تلوار (کی غنیمتوں) سے کھائے گا۔“
|