الفتن و اشراط الساعة والبعث فتنے، علامات قیامت اور حشر फ़ितने, क़यामत की निशानियां और क़यामत का दिन بدعت اور خیانت کا وبال “ बिदअत और अमानत में ख़यानत का बोझ ”
زوجہ رسول سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے ان کے غلام عبداللہ بن رافع بیان کرتے ہیں، وہ کہتی ہیں: میں لوگوں کو حوض کا تذکرہ کرتے ہوئے سنتی رہتی تھی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس موضوع پر کوئی حدیث براہ راست نہیں سنی تھی، ایک دن میری لونڈی میری کنگھی کر رہی تھی، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ آواز لگاتے سنا: ”لوگو!“ میں نے لونڈی سے کہا: پیچھے ہٹ جاؤ۔ اس نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کو بلایا ہے، نہ کہ عورتوں کو۔ میں نے کہا: (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو بلایا ہے اور) میں بھی ان میں سے ہی ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں حوض پر تم لوگوں کا پیش رو ہوں گا۔ میری اطاعت کرتے رہنا! کہیں ایسا نہ ہو کہ تم وہاں میرے پاس پہنچو اور تمہیں بھٹکے ہوئے اونٹ کی طرح (مجھ سے دور) دھتکار دیا جائے۔ میں پوچھوں: ایسے کیوں ہو رہا ہے؟ مجھے جواباً کہا جائے: آپ نہیں جانتے کہ ان لوگوں نے آپ کے بعد کون کون سی بدعات رائج کر دی تھیں۔ (یہ سن کر) میں کہوں گا: بربادی ہو۔“
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما، سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تم لوگوں کو آگ سے بچانے کے لیے تمہیں کمروں سے پکڑ رہا ہوں، لیکن تم پتنگوں اور اچھلی اڑتی ٹڈیوں کی طرح اس میں زبردستی گھسنا چاہتے ہو، ممکن ہے کہ میں تمہاری کمروں کو چھوڑ دوں۔ (یاد رکھو کہ) میں حوض پر تمہارا پیش رو ہوں گا، تم میرے پاس متحد ہو کر اور منتشر ہو کر (دونوں صورتوں میں) آؤ گے، میں تمہیں تمہارے ناموں اور علامتوں سے ایسے پہچان لوں گا جیسے کوئی آدمی اپنے اونٹوں میں گھسنے والے اجنبی اونٹ کو پہچان لیتا ہے، لیکن تمہیں بائیں طرف دھتکار دیا جائے گا اور میں تمہارے لیے جہانوں کے پالنہار سے اپیل کرتے ہوئے کہوں گا: اے میرے رب! میری امت ( کو بچاؤ)۔ جواباً کہا جائے گا: تم نہیں جانتے کہ ان لوگوں نے تمہارے بعد کون کون سی بدعات رائج کر دی تھیں، تیرے بعد انہوں نے الٹے پاؤں چلنا شروع کر دیا تھا۔ میں تم میں سے کسی کو اس حال میں نہ دیکھوں کہ اس نے ممیاتی ہوئی بکری اٹھا رکھی ہو اور یہ آواز دے رہا ہو: اے محمد! اے محمد! (میری معاونت کیجئیے) اور میں کہوں گا: میں تیرے لیے اللہ تعالیٰ سے کسی چیز کا مالک نہیں ہوں، میں نے تو (تیرے تک) پیغام پہنچا دیا تھا۔ میں کسی کو اس حال میں نہ پہچانوں کہ اس نے بلبلاتا ہو اونٹ اٹھا رکھا ہو اور آواز دے رہا ہو: اے محمد! اے محمد! (میرا سہارا بنو)۔ میں کہوں گا: میں تیرے لیے اللہ تعالیٰ سے کسی چیز کا مالک نہیں ہوں، میں نے تو پیغام پہنچا دیا تھا (کہ ایسا نہ کرنا)۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم میں سے کسی نے روز قیامت ہنہناتا ہوا گھوڑا اٹھا رکھا ہو اور آواز دے رہا ہو: اے محمد! اے محمد! میں جواباً کہوں: میں تیرے لیے اللہ تعالیٰ سے کسی چیز کا مالک نہیں ہوں۔ میں تم میں سے کسی کو قیامت والے دن اس حالت میں نہ دیکھوں کہ پرانی کھال کا ٹکڑا اٹھا رکھا ہو اور پکار رہا ہو: اے محمد! اے محمد! اور میں کہہ دوں: میں تیرے لیے کسی چیز کا مالک نہیں ہوں، میں نے تو ( اللہ کا پیغام) تیرے تک پہنچا دیا تھا۔“
|