الفتن و اشراط الساعة والبعث فتنے، علامات قیامت اور حشر फ़ितने, क़यामत की निशानियां और क़यामत का दिन سیدنا علی رضی اللہ عنہ حق پر تھے، مشاجرات صحابہ کے بارے میں متاخرین کو کیا کہنا چاہیے؟ “ हज़रत अली रज़ि अल्लाहु अन्ह सही थे। बाद वालों को सहाबा के विवाद के बारे में क्या कहना चाहिए ? ”
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب بھی عمار کو دو امور میں سے ایک کو انتخاب کرنے کا اختیار دیا گیا تو انہوں نے انتہائی ہدایت والے معاملے کو اختیار کیا۔“
بلال بن یحییٰ کہتے ہیں جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کیا گیا، تو سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کے پاس ایک آدمی آیا اور کہا: اے ابوعبداللہ! عثمان (رضی اللہ عنہ) کو تو شہید کر دیا گیا ہے اور لوگ اختلاف میں پڑ چکے ہیں، ایسے میں آپ کیا کہیں گے؟ انہوں نے کہا: مجھے سہارا دو۔ انہوں نے ان کو ایک آدمی کے سینے کا سہارا دیا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: ”ابوالیقظان فطرت (اسلام) پر ہے اور اس کو مرنے تک یا انتہائی بوڑھا ہونے تک نہیں چھوڑے گا۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عمار! خوش ہو جا، تجھے باغی گروپ قتل کرے گا۔“
ابوحرب بن ابو اسود کہتے ہیں: میں سیدنا علی اور سیدنا زبیر رضی اللہ عنہما کے پاس موجود تھا، سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ اپنی سواری پر صفوں کو چیرتے ہوئے واپس جا رہے تھے، ان کا بیٹا سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ ان کے سامنے آیا اور پوچھا: آپ کو کیا ہو گیا؟ انہوں نے کہا: سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے مجھے ایسی حدیث بیان کی جو میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو اس سے ضرور لڑے گا اور تو اس کے حق میں ظالم ہو گا۔“ سو میں اس سے قتال نہیں کرتا۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ لڑنے کے لیے تھوڑے آئے ہیں؟ آپ تو لوگوں کے مابین صلح کروانے کے لیے آئے ہیں، ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے ذریعے اس معاملے کا تصفیہ کر دے۔ انہوں نے کہا: میں نے تو قتال نہ کرنے کی قسم اٹھا لی ہے۔ سیدنا عبداللہ نے کہا: ( تو بطور کفارہ) جرجس نامی غلام کو آزاد کر دو اور لوگوں کے درمیان صلح کروانے تک یہیں ٹھہرے رہو۔ سو انہوں نے اپنے غلام جرجس کو آزاد کر دیا اور وہیں ٹھہر گئے، لیکن جب لوگوں کا معاملہ مختلف فیہ ہو گیا ( اور صلح نہ ہو سکی) تو وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر چلے گئے۔
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں میں عمرو بن العاص زیادہ سلامتی والا اور امن والا ہے۔“
|