Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابن ماجه
كتاب الصيام
کتاب: صیام کے احکام و مسائل
51. بَابُ : مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صِيَامٌ مِنْ نَذْرٍ
باب: میت کے نذر والے روزے کے حکم کا بیان۔
حدیث نمبر: 1759
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَطَاءٍ ، عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ وَعَلَيْهَا صَوْمٌ، أَفَأَصُومُ عَنْهَا؟، قَالَ:" نَعَمْ".
بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک عورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی، اور اس نے کہا: اللہ کے رسول! میری ماں کا انتقال ہو گیا، اور اس پر روزے تھے، کیا میں اس کی طرف سے روزے رکھوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الصوم 27 (1149)، سنن ابی داود/الزکاة 31 (1656)، الوصایا 12 (2877)، الإیمان 25 (3309)، سنن الترمذی/ الزکاة 31 (667)، (تحفة الأشراف: 1980)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/351، 361) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: علامہ ابن القیم فرماتے ہیں کہ میت کی طرف سے نذر کا روزہ رکھنا جائز ہے، اور فرض اصلی یعنی رمضان کا جائز نہیں، عبداللہ بن عباس اور ان کے اصحاب اور امام احمد کا یہی قول ہے اور یہ صحیح ہے کیونکہ فرض روزہ مثل نماز کے ہے، اور نماز کوئی دوسرے کی طرف سے نہیں پڑھ سکتا، اور نذر مثل قرض کے ہے تو میت کی طرف سے وارث کا ادا کرنا کافی ہو گا، جیسے اس کی طرف سے قرض ادا کرنا، الروضہ الندیہ میں ہے کہ میت کی طرف سے ولی کا روزہ رکھنا اس وقت کافی ہو گا جب اس نے عذر سے صیام رمضان نہ رکھے ہوں، لیکن اگر بلا عذر کسی نے صیام رمضان نہ رکھے تو اس کی طرف سے ولی کا روزے رکھنا کافی نہ ہو گا جیسے میت کی طرف سے توبہ کرنا، یا اسلام لانا یا نماز ادا کرنا کافی نہیں ہے، اور ظاہر مضمون حدیث کا یہ ہے کہ ولی پر میت کی طرف سے روزہ رکھنا یا کھانا کھلانا واجب ہے خواہ میت نے وصیت کی ہو اس کی یا نہ کی ہو۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1759 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1759  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
فو ت شدہ شخص کے ذمے اگر روزے ہوں تو اس کے وارث اس کی طرف سے روزے رکھ سکتے ہیں
(2)
روزے خواہ رمضان کے ہوں یا نذر کے یا کفار کے سب کا ایک ہی حکم ہے کیو نکہ یہ سب اللہ کا قرض ہے ارشاد نبوی ہے جو شخص فوت ہو جائے اور اس کے ذمے روزے ہوں اس کا ولی وارث اس کی طرف سے روزے رکھے۔ (صحیح البخاري، الصوم، باب من مات وعلیہ صوم، حدیث: 1953)
 اگر ولی یعنی وارث اس کی طرف سے روزے نہ رکھیں تو پھر گزشتہ حدیث 1757 میں جو بیان ہو ا ہے اس پر عمل کیا جائے گا کہ ہر دن کے روزے کی جگہ ایک مسکین کو کھانا کھلا دیا جائے گو وہ روایت مرفوعاً ضعیف ہے لیکن موقوفا صحیح ہے ایک اور روایت حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے صحیح ابن خزیمہ میں بھی مروی ہے کہ ہر دن نصف صاع گند م دی جا ئے (صحیح ابن خزیمة، حدیث: 2057)
۔

(3)
روزے پر دوسری عبادات مثلا نما ز کو قیاس نہیں کر سکتے کیو نکہ عبادات کے لئے نص دلیل کا ہونا لازمی امر ہے عبادت کے جن معاملا ت میں نیابت حدیث سے ثا بت ہے و ہی کریں گے باقی کے بارے میں توقف کریں گے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1759