(مرفوع) حدثنا سهل بن ابي سهل ، حدثنا سفيان بن عيينة ، عن الزهري ، عن عبيد الله بن عبد الله ، قال: سالت عائشة ، فقلت: اي امه اخبريني عن مرض رسول الله صلى الله عليه وسلم؟، قالت:" اشتكى فعلق ينفث، فجعلنا نشبه نفثه بنفثة آكل الزبيب، وكان يدور على نسائه، فلما ثقل استاذنهن ان يكون في بيت عائشة وان يدرن عليه، قالت: فدخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو بين رجلين، ورجلاه تخطان بالارض احدهما العباس، فحدثت به ابن عباس، فقال: اتدري من الرجل الذي لم تسمه عائشة، هو علي بن ابي طالب". (مرفوع) حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ أَبِي سَهْلٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ ، فَقُلْتُ: أَيْ أُمَّهْ أَخْبِرِينِي عَنْ مَرَضِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟، قَالَتْ:" اشْتَكَى فَعَلَقَ يَنْفُثُ، فَجَعَلْنَا نُشَبِّهُ نَفْثَهُ بِنَفْثَةِ آكِلِ الزَّبِيبِ، وَكَانَ يَدُورُ عَلَى نِسَائِهِ، فَلَمَّا ثَقُلَ اسْتَأْذَنَهُنَّ أَنْ يَكُونَ فِي بَيْتِ عَائِشَةَ وَأَنْ يَدُرْنَ عَلَيْهِ، قَالَتْ: فَدَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بَيْنَ رَجُلَيْنِ، وَرِجْلَاهُ تَخُطَّانِ بِالْأَرْضِ أَحَدُهُمَا الْعَبَّاسُ، فَحَدَّثْتُ بِهِ ابْنَ عَبَّاسٍ، فَقَالَ: أَتَدْرِي مَنِ الرَّجُلُ الَّذِي لَمْ تُسَمِّهِ عَائِشَةُ، هُوَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ".
عبیداللہ بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: اماں جان! مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کا حال بیان کیجئے تو انہوں نے بیان کیا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے تو (اپنے بدن پر) پھونکنا شروع کیا، ہم نے آپ کے پھونکنے کو انگور کھانے والے کے پھونکنے سے تشبیہ دی ۱؎، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کا باری باری چکر لگایا کرتے تھے، لیکن جب آپ سخت بیمار ہوئے تو بیویوں سے عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں رہنے کی اجازت مانگی، اور یہ کہ بقیہ بیویاں آپ کے پاس آتی جاتی رہیں گی۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس دو آدمیوں کے سہارے سے آئے، اس حال میں کہ آپ کے پیر زمین پہ گھسٹ رہے تھے، ان دو میں سے ایک عباس رضی اللہ عنہ تھے۔ عبیداللہ نے کہا کہ میں نے یہ حدیث عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان کی تو انہوں نے پوچھا: کیا تم جانتے ہو کہ دوسرا آدمی کون تھا، جن کا عائشہ رضی اللہ عنہا نے نام نہیں لیا؟ وہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ تھے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 39 (665)، 46 (679)، 47 (683)، 51 (687)، 67 (712)، 68 (713)، 70 (796)، المغازي 83 (4442)، الاعتصام 5 (7303)، صحیح مسلم/الصلاة 21 (418)، سنن النسائی/الإمامة 40 (834)، (تحفة الأشراف: 16309)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/قصرالصلاة 24 (83)، مسند احمد (6/34، 96، 97، 210، 224، 228، 249، 251)، دي الصلاة 44 (1292) (صحیح)» (زبیب کے جملہ کے علاوہ بقیہ حدیث صحیح ہے)
وضاحت: ۱؎: یعنی انگور کھانے والا منہ سے بیج نکالنے کے لیے جس طرح پھونکتا ہے اس طرح آپ پھونک رہے تھے۔
It was narrated that ‘Ubaidullah bin ‘Abdullah said:
“I asked ‘Aishah: ‘O mother! Tell me about the sickness of the Messenger of Allah (ﷺ).’ She said: ‘He felt pain and started to spit (over his body), and we began to compare his spittle to the spittle of a person eating raisins. Like a person eating raisins and spitting out the seeds. He used to go around among his wives, but when he became ill, he asked them permission to stay in the house of ‘Aishah and that they should come to him in turns.’ She said: ‘The Messenger of Allah (ﷺ) entered upon me, (supported) between two men, with his feet making lines along the ground. One of them was ‘Abbas.’ I told Ibn ‘Abbas this Hadith and he said: ‘Do you know who the other man was whom ‘Aishah did not name? He was ‘Ali bin Abu Talib.’”
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا ابو معاوية ، عن الاعمش ، عن مسلم ، عن مسروق ، عن عائشة ، قالت:" كان النبي صلى الله عليه وسلم يتعوذ بهؤلاء الكلمات، اذهب الباس رب الناس، واشف انت الشافي، لا شفاء إلا شفاؤك، شفاء لا يغادر سقما"، فلما ثقل النبي صلى الله عليه وسلم في مرضه الذي مات فيه، اخذت بيده فجعلت امسحه واقولها، فنزع يده من يدي، ثم قال:" اللهم اغفر لي والحقني بالرفيق الاعلى"، قالت: فكان هذا آخر ما سمعت من كلامه صلى الله عليه وسلم. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ مُسْلِمٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ:" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَعَوَّذُ بِهَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ، أَذْهِبْ الْبَاسَ رَبَّ النَّاسِ، وَاشْفِ أَنْتَ الشَّافِي، لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ، شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا"، فَلَمَّا ثَقُلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ، أَخَذْتُ بِيَدِهِ فَجَعَلْتُ أَمْسَحُهُ وَأَقُولُهَا، فَنَزَعَ يَدَهُ مِنْ يَدِي، ثُمَّ قَالَ:" اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَأَلْحِقْنِي بِالرَّفِيقِ الْأَعْلَى"، قَالَتْ: فَكَانَ هَذَا آخِرَ مَا سَمِعْتُ مِنْ كَلَامِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کلمات کے ذریعہ حفاظت و عافیت کی دعا کرتے تھے «أذهب الباس رب الناس. واشف أنت الشافي لا شفاء إلا شفاؤك شفاء لا يغادر سقما»”اے لوگوں کے رب! بیماری دور کر دے، اور شفاء دے، تو ہی شفاء دینے والا ہے، شفاء تو بس تیری ہی شفاء ہے، تو ایسی شفاء عنایت فرما کہ کوئی بیماری باقی نہ رہے“ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ بیماری سخت ہو گئی جس میں آپ کا انتقال ہوا، تو میں آپ کا ہاتھ پکڑ کر آپ کے جسم پر پھیرتی تھی، اور یہ کلمات کہتی جاتی تھی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ سے نکال لیا، اور فرمایا: «اللهم اغفر لي وألحقني بالرفيق الأعلى»”اے اللہ! مجھے بخش دے، اور رفیق اعلیٰ سے ملا دے) یہی آخری کلمہ تھا جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المغازي 84 (4437)، المرضی 18 (5675)، الدعوات 29 (6348)، صحیح مسلم/الطب 19 (2191)، سنن الترمذی/ الدعوات 77 (3496)، (تحفة الأشراف: 17638)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الجنائز 16 (46)، مسند احمد (6/44، 45، 109، 127)، (یہ حدیث مکرر ہے دیکھئے: 3520) (صحیح)» (صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں «یعوذ» کے لفظ سے ہے، اور وہی محفوظ ہے)۔
It was narrated that ‘Aishah said:
“The Prophet (ﷺ) used to seek refuge using the following words: ‘Adhhibil-ba’s, Rabbin-nas, washfi Antash-shafi, la shifa’a illa shifa’uka, shifa’an la yughadiru saqaman (Take away the affliction, O Lord of mankind, and grant healing, for You are the Healer and there is no healing that leaves no sickness).’ When the Prophet (ﷺ) fell sick with the sickness that would be his last, I took his hand and wiped it over his body and recited these words. He withdrew his hand from mine and said: ‘O Allah, forgive me and let me meet the exalted companions (i.e., those who occupy high positions in Paradise).’ Those were the last words of his that I heard.”
(مرفوع) حدثنا ابو مروان العثماني ، حدثنا إبراهيم بن سعد ، عن ابيه ، عن عروة ، عن عائشة ، قالت: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" ما من نبي يمرض إلا خير بين الدنيا والآخرة"، قالت: فلما كان مرضه الذي قبض فيه اخذته بحة فسمعته، يقول:" مع الذين انعم الله عليهم من النبيين والصديقين والشهداء والصالحين سورة النساء آية 69" فعلمت انه خير. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مَرْوَانَ الْعُثْمَانِيُّ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَا مِنْ نَبِيٍّ يَمْرَضُ إِلَّا خُيِّرَ بَيْنَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ"، قَالَتْ: فَلَمَّا كَانَ مَرَضُهُ الَّذِي قُبِضَ فِيهِ أَخَذَتْهُ بُحَّةٌ فَسَمِعْتُهُ، يَقُولُ:" مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ سورة النساء آية 69" فَعَلِمْتُ أَنَّهُ خُيِّرَ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”جو نبی بھی بیمار ہوا اسے دنیا یا آخرت میں رہنے کا اختیار دیا گیا“ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مرض میں مبتلا ہوئے جس میں آپ کا انتقال ہوا، تو آپ کو ہچکی آنے لگی، میں نے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ رہے تھے: «مع الذين أنعم الله عليهم من النبيين والصديقين والشهداء والصالحين»”ان لوگوں کے ساتھ جن پر اللہ نے احسان کیا، انبیاء، صدیقین شہداء، اور صالحین میں سے“ تو اس وقت میں نے جان لیا کہ آپ کو اختیار دیا گیا ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المغازي 84 (4435، 4436)، تفسیر سورة النساء 13 (4586)، صحیح مسلم/فضائل الصحابة 13 (2444)، (تحفة الأشراف: 16338)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/176، 205، 269) (صحیح)»
It was narrated that ‘Aishah said:
“I heard the Messenger of Allah (ﷺ) say: ‘There is no Prophet who fell sick but he was given the choice between this world and the Hereafter.’ She said: ‘When he became sick with the illness that would be his last, (his voice) became hoarse and I heard him say, “In the company of those on whom Allah has bestowed His grace, of the Prophets, the true believers, the martyrs, and the righteous.’” [4:69] Then I knew that he had been given the choice.”
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا عبد الله بن نمير ، عن زكريا ، عن فراس ، عن عامر ، عن مسروق ، عن عائشة ، قالت: اجتمعن نساء النبي صلى الله عليه وسلم فلم تغادر منهن امراة، فجاءت فاطمة كان مشيتها مشية رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" مرحبا بابنتي"، ثم اجلسها عن شماله، ثم إنه اسر إليها حديثا، فبكت فاطمة، ثم إنه سارها فضحكت ايضا، فقلت لها: ما يبكيك؟، قالت: ما كنت لافشي سر رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: ما رايت كاليوم فرحا اقرب من حزن، فقلت لها: حين بكت اخصك رسول الله صلى الله عليه وسلم بحديث دوننا، ثم تبكين، وسالتها عما قال؟، فقالت: ما كنت لافشي سر رسول الله صلى الله عليه وسلم، حتى إذا قبض سالتها عما قال، فقالت:" إنه كان يحدثني، ان جبرائيل كان يعارضه بالقرآن في كل عام مرة، وانه عارضه به العام مرتين، ولا اراني إلا قد حضر اجلي، وانك اول اهلي لحوقا بي، ونعم السلف انا لك فبكيت"، ثم إنه سارني، فقال:" الا ترضين ان تكوني سيدة نساء المؤمنين، او نساء هذه الامة، فضحكت لذلك". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ ، عَنْ زَكَرِيَّا ، عَنْ فِرَاسٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: اجْتَمَعْنَ نِسَاءُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ تُغَادِرْ مِنْهُنَّ امْرَأَةٌ، فَجَاءَتْ فَاطِمَةُ كَأَنَّ مِشْيَتَهَا مِشْيَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" مَرْحَبًا بِابْنَتِي"، ثُمَّ أَجْلَسَهَا عَنْ شِمَالِهِ، ثُمَّ إِنَّهُ أَسَرَّ إِلَيْهَا حَدِيثًا، فَبَكَتْ فَاطِمَةُ، ثُمَّ إِنَّهُ سَارَّهَا فَضَحِكَتْ أَيْضًا، فَقُلْتُ لَهَا: مَا يُبْكِيكِ؟، قَالَتْ: مَا كُنْتُ لِأُفْشِيَ سِرَّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: مَا رَأَيْتُ كَالْيَوْمِ فَرَحًا أَقْرَبَ مِنْ حُزْنٍ، فَقُلْتُ لَهَا: حِينَ بَكَتْ أَخَصَّكِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحَدِيثٍ دُونَنَا، ثُمَّ تَبْكِينَ، وَسَأَلْتُهَا عَمَّا قَالَ؟، فَقَالَتْ: مَا كُنْتُ لِأُفْشِيَ سِرَّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى إِذَا قُبِضَ سَأَلْتُهَا عَمَّا قَالَ، فَقَالَتْ:" إِنَّهُ كَانَ يُحَدِّثُنِي، أَنَّ جِبْرَائِيلَ كَانَ يُعَارِضُهُ بِالْقُرْآنِ فِي كُلِّ عَامٍ مَرَّةً، وَأَنَّهُ عَارَضَهُ بِهِ الْعَامَ مَرَّتَيْنِ، وَلَا أُرَانِي إِلَّا قَدْ حَضَرَ أَجَلِي، وَأَنَّكِ أَوَّلُ أَهْلِي لُحُوقًا بِي، وَنِعْمَ السَّلَفُ أَنَا لَكِ فَبَكَيْتُ"، ثُمَّ إِنَّهُ سَارَّنِي، فَقَالَ:" أَلَا تَرْضَيْنَ أَنْ تَكُونِي سَيِّدَةَ نِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ، أَوْ نِسَاءِ هَذِهِ الْأُمَّةِ، فَضَحِكْتُ لِذَلِكَ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں اکٹھا ہوئیں اور ان میں سے کوئی بھی پیچھے نہ رہی، اتنے میں فاطمہ رضی اللہ عنہا آئیں، ان کی چال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چال کی طرح تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری بیٹی! خوش آمدید“ پھر انہیں اپنے بائیں طرف بٹھایا، اور چپکے سے کوئی بات کہی تو وہ رونے لگیں، پھر چپکے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی بات کہی تو وہ ہنسنے لگیں، عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے ان سے پوچھا کہ تم کیوں روئیں؟ تو انہوں نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے راز کو فاش نہیں کرنا چاہتی، میں نے کہا: آج جیسی خوشی جو غم سے قریب تر ہو میں نے کبھی نہیں دیکھی، جب فاطمہ روئیں تو میں نے ان سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی خاص بات تم سے فرمائی ہے، جو ہم سے نہیں کہی کہ تم رو رہی ہو، اور میں نے پوچھا: آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا؟ انہوں نے یہی جواب دیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا راز فاش کرنے والی نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد میں نے ان سے پھر پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا تھا؟ تو انہوں نے کہا کہ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ جبرائیل مجھ سے ہر سال ایک بار قرآن کا دور کراتے تھے اب کی سال دو بار دور کرایا، تو میں سمجھتا ہوں کہ میری موت کا وقت قریب آ گیا ہے، اور تم میرے رشتہ داروں میں سب سے پہلے مجھ سے ملو گی، اور میں تمہارے لیے کیا ہی اچھا پیش رو ہوں“ یہ سن کر میں روئی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آہستہ سے مجھ سے فرمایا: ”کیا تم اس بات سے خوش نہیں ہو کہ تم مومنوں کی عورتوں کی یا اس امت کی عورتوں کی سردار ہو گی، یہ سن کر میں ہنسی ۱؎“۔
It was narrated that ‘Aishah said:
“The wives of the Prophet (ﷺ) gathered together and not one of them lagged behind. Fatimah came, and her gait was like that of the Messenger of Allah (ﷺ). He said, ‘Welcome to my daughter.’ Then he made her sit to his left, and he whispered something to her, and she smiled. I said to her: ‘What made you weep?’ She said: ‘I will not disclose the secret of the Messenger of Allah (ﷺ).’ I said: ‘I never saw joy so close to grief as I saw today.’ When she wept I said: ‘Did the Messenger of Allah (ﷺ) tell you some special words that were not for us, then you wept?’ And I asked her about what he had said. She said: ‘I will not disclose the secret of the Messenger of Allah (ﷺ).’ After he died I asked her what he had said, and she said: ‘He told me that Jibra’il used to review the Qur’an with him once each year, but he had reviewed it with him twice that year, (and he said:) “I do not think but that my time is near. You will be the first of my family to join me, and what a good predecessor I am for you.” So I wept. Then he whispered to me and said: “Will you not be pleased to be the leader of the women of this Ummah?” So I smiled.’”
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو موت کے وقت دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پانی کا ایک پیالہ تھا، آپ اپنا ہاتھ پیالہ میں داخل کرتے، اور پانی اپنے منہ پر ملتے، پھر فرماتے: ”اے اللہ! موت کی سختیوں میں میری مدد فرما“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الجنائز 8 (978)، (تحفة الأشراف: 17556)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/64، 70، 77، 151) (ضعیف)» (سند میں موسی بن سرجس مستور ہیں)
It was narrated that ‘Aishah said:
“I saw the Messenger of Allah (ﷺ) when he was dying, and there was a bowl of water next to him. He put his hand in the vessel and wiped his face with the water, and said: ‘O Allah, help me to bear the agonies of death.’”
(مرفوع) حدثنا هشام بن عمار ، حدثنا سفيان بن عيينة ، عن الزهري ، سمع انس بن مالك ، يقول:" آخر نظرة نظرتها إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم كشف الستارة يوم الاثنين، فنظرت إلى وجهه، كانه ورقة مصحف، والناس خلف ابي بكر في الصلاة، فاراد ان يتحرك فاشار إليه ان اثبت، والقى السجف، ومات من آخر ذلك اليوم". (مرفوع) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ، يَقُولُ:" آخِرُ نَظْرَةٍ نَظَرْتُهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَشْفُ السِّتَارَةِ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ، فَنَظَرْتُ إِلَى وَجْهِهِ، كَأَنَّهُ وَرَقَةُ مُصْحَفٍ، وَالنَّاسُ خَلْفَ أَبِي بَكْرٍ فِي الصَّلَاةِ، فَأَرَادَ أَنْ يَتَحَرَّكَ فَأَشَارَ إِلَيْهِ أَنِ اثْبُتْ، وَأَلْقَى السِّجْفَ، وَمَاتَ مِنْ آخِرِ ذَلِكَ الْيَوْمِ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری دیدار مجھے دوشنبہ کے دن ہوا، آپ نے (اپنے حجرہ کا) پردہ اٹھایا، میں نے آپ کا چہرہ مبارک دیکھا، تو گویا مصحف کا ایک ورق تھا، لوگ اس وقت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی جگہ سے ہٹنے کا ارادہ کیا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اشارہ کیا کہ اپنی جگہ پر رہو، اور پردہ گرا دیا، پھر اسی دن کی شام کو آپ کا انتقال ہو گیا ۱؎“۔
وضاحت: ۱؎: ہر چند نماز میں التفات کرنا (یعنی ادھر اُدھر دیکھنا) منع ہے، لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نبی اکرم ﷺ سے اس قدر محبت تھی کہ نماز کی حالت میں بے اختیاری کی وجہ سے آپ کے دیدار میں محو ہو گئے، دوسری روایت میں یوں ہے کہ قریب تھا کہ ہم فتنہ میں پڑ جائیں، یعنی نماز بھول جائیں آپ کے دیدار کی خوشی میں، سبحان اللہ۔ ایمان صحابہ ہی کا ایمان تھا کہ اللہ اور اس کے رسول کی محبت میں ایسے غرق تھے جیسے حدیث شریف میں وارد ہے کہ کوئی مومن نہیں ہوتا جب تک نبی کریم ﷺ کی محبت ماں باپ اور تمام اعزہ و اقارب سے زیادہ نہ ہو، افسوس اس زمانہ میں ایسے کامل الایمان لوگ کہاں ہیں؟ اب تو دنیا کے حقیر فائدہ کے لئے اور ادنی ادنی امیروں اور نوابوں کو خوش کرنے کے لئے سنت نبوی سے اعراض اور تغافل کرتے ہیں۔
It was narrated that Zuhri heard Anas bin Malik say:
“The last glance that I had of the Messenger of Allah (ﷺ) was when he drew back the curtain on Monday, and I saw his face as if it was a page of the Mushaf (Qur’an), and the people were praying behind Abu Bakr. He (Abu Bakr) wanted to move, but he (the Prophet (ﷺ)) gestured to him to stand firm. Then he let the curtain fall, and he died at the end of that day.
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اس مرض میں کہ جس میں آپ کا انتقال ہو گیا، فرما رہے تھے: «الصلاة وما ملكت أيمانكم»”نمسش کا، اور لونڈیوں اور غلاموں کا خیال رکھنا“ آپ برابر یہی جملہ کہتے رہے، یہاں تک کہ آپ کی زبان مبارک رکنے لگی ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 18154، ومصباح الزجاجة: 590)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/290، 311، 315، 321) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ ﷺ کو نماز کا بڑا خیال تھا کیونکہ نماز توحید باری تعالیٰ کے بعد اسلام کا سب سے اہم اور بنیادی رکن ہے، اسی لئے وفات کے وقت بھی آپ نے اس کے لئے وصیت فرمائی، مطلب یہ تھا کہ نماز کی محافظت کرو، وقت پر پڑھو، شرائط اور ارکان کے ساتھ ادا کرو، دوسرا اہم مسئلہ لونڈی اور غلام کا تھا، آپ کی وصیت کا مقصد یہ تھا کہ لوگ لونڈیوں اور غلاموں کے ساتھ اچھا برتاؤ کریں اور ان پر ظلم نہ کریں۔ جو لوگ غلامی کی وجہ سے اسلام پر تنقید کرتے ہیں ان کو یہ خبر نہیں ہوئی کہ درحقیقت غلامی کیا ہے گویا فرزندی میں لینا ہے اور اپنی اولاد کی طرح ایک بے وارث شخص کی پرورش کرنا ہے، اس میں عقلاً کون سی قباحت ہے؟ بلکہ قیدیوں کے گزارے کے لئے اس سے بہتر دوسری کوئی صورت عقل ہی میں نہیں آتی، البتہ اس زمانہ میں بعض جاہل لوگ لونڈیوں اور غلاموں کے ساتھ جو وحشیانہ سلوک کرتے تھے تو یہ بری بات ہے، مگر دین اسلام پر یہ تنقید صحیح نہیں ہے کیونکہ اسلام نے تو ایسے برتاؤ سے منع کیا ہے، اور ان کے ساتھ بار بار نیک سلوک کرنے کی وصیت کی ہے یہاں تک نبی کریم ﷺ کی زبان مبارک اسی پر بے قابو ہو گئی، اور آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی ﷺ۔
It was narrated from Umm Salamah that the Messenger of Allah (ﷺ) used to say, during the illness that would be his last:
“The prayer, and those whom your hands possess.”* And he kept on saying it until his tongue could no longer utter any words.
اسود کہتے ہیں کہ لوگوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان کیا کہ علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی تھے، تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: آپ نے ان کو کب وصیت کی؟ میں تو آپ کو اپنے سینے سے لگائے ہوئے تھی، یا گود میں لیے ہوئے تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طشت منگوایا، پھر آپ میری گود میں لڑھک گئے، اور وفات پا گئے، مجھے محسوس تک نہ ہوا، پھر آپ نے وصیت کب کی؟۔
It was narrated that Aswad said:
“They said in ‘Aishah’s presence that ‘Ali was appointed (by the Prophet (ﷺ) before he died), and she said: ‘When was he appointed? He (the Prophet (ﷺ)) was resting against my bosom, or in my lap, and he called for a basin, then he became limp in my lap and died, and I did not realize it. So when did he (ﷺ) appoint him?’”