Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابن ماجه
كتاب الجنائز
کتاب: صلاۃ جنازہ کے احکام و مسائل
64. بَابُ : مَا جَاءَ فِي ذِكْرِ مَرَضِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کا بیان۔
حدیث نمبر: 1622
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا مُصْعَبُ بْنُ الْمِقْدَامِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ شَقِيقٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ :" مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَشَدَّ عَلَيْهِ الْوَجَعُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے کسی پر مرض الموت کی تکلیف اتنی سخت نہیں دیکھی جتنی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر دیکھی ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/المرضی 2 (5646)، صحیح مسلم/البروالصلة 14 (2570)، (تحفة الأشراف: 17609)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الزہد 56 (2397)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/181) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ سکرات کی شدت اور موت کی سختی بری چیز نہیں ہے، بلکہ اس سے درجے بلند ہوتے ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: بخاري ومسلم

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1622 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1622  
اردو حاشہ:
فائده:
جان نکلنے کی سختی یا نرمی اور چیز ہے۔
اور بیماری کی وجہ سے جسم کا تکلیف محسوس کرنا اور چیز ہے۔
بعض اوقات مرض کی شدت کی وجہ سے وفات تک تکلیف رہتی ہے۔
یہ جسمانی تکلیف ہے۔
جس کا انسان کے نیک یا بد ہونے سے کوئی تعلق نہیں۔
جان نکلتے وقت فرشتوں کی سختی کی وجہ سے حاصل ہونے والی تکلیف کا تعلق روح سے ہے۔
اسے قریب بیٹھے ہوئے لوگ بھی محسوس نہیں کرسکتے البتہ یہ تکلیف نیک لوگوں کو نہیں ہوتی۔
گناہ گاروں اور کافروں کو ان کے جرائم کے مطابق کم یا زیادہ ہوتی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1622   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2397  
´مصیبت میں صبر کرنے کا بیان۔`
ابووائل شقیق بن سلمہ کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درد سے زیادہ درد کسی شخص کا نہیں دیکھا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الزهد/حدیث: 2397]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس سے اس تکلیف کی طرف اشارہ ہے جس سے مرض الموت میں آپ ﷺدو چار ہوئے تھے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2397   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5646  
5646. ام المومنین سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے زیادہ کسی کو سخت بیماری میں مبتلا نہیں دیکھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5646]
حدیث حاشیہ:
آپ کو اس قدر شدید بخار تھا کہ چادر مبارک بھی بہت سخت گرم ہو گئی تھی، بار بار غشی طاری ہوتی اور آپ بے ہوش ہو کر ہوش میں ہو جاتے پھر غشی طاری ہو جاتی اور وقت ہوش زبان مبارک سے یہ الفاظ نکلتے (اللھم ألحقني بالرفیق الأعلیٰ صلی اللہ علیه وسلم۔
)

   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5646   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5646  
5646. ام المومنین سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے زیادہ کسی کو سخت بیماری میں مبتلا نہیں دیکھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5646]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا مرض وفات کی حالت بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر غشی طاری ہوتی، پھر ہوش میں آتے، پانی سے کپڑا تر کر کے ہونٹوں پر لگاتے اور کہتے:
موت کی بہت سختیاں ہیں۔
(2)
اللہ تعالیٰ ان حضرات کو سخت تکلیفوں میں مبتلا کرتا ہے جن میں قوتِ یقین، کمالِ صبر اور ایمان کی بہت مضبوطی ہوتی ہے۔
وہ بیماری کو حصول ثواب اور بلندئ درجات کا ذریعہ خیال کرتے ہیں، اس لیے جس قدر بیماری سخت ہو گی اسی قدر ثواب زیادہ ہو گا۔
واللہ المستعان
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5646