كتاب الجنائز کتاب: صلاۃ جنازہ کے احکام و مسائل 8. بَابُ: مَا جَاءَ فِي غُسْلِ الْمَيِّتِ باب: میت کو غسل دینے کا بیان۔
ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے، ہم آپ کی بیٹی ام کلثوم رضی اللہ عنہا کو غسل دے رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہیں تین بار، یا پانچ بار، یا اس سے زیادہ اگر تم مناسب سمجھو تو پانی اور بیری کے پتے سے غسل دو ۱؎، اور اخیر بار کے غسل میں کافور یا کہا: تھوڑا سا کافور ملا لو، جب تم غسل سے فارغ ہو جاؤ تو مجھے خبر کرو“، لہٰذا جب ہم غسل سے فارغ ہوئے تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر کی، آپ نے اپنا تہبند ہماری طرف پھینکا اور فرمایا: ”اسے جسم سے متصل کفن میں سب سے نیچے رکھو“ ۲؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الوضوء 31 (167)، الجنائز 8 (1253)، 9 (1254)، 10 (1255)، 11 (1256)، 12 (1257)، 13 (1258)، 14 (1260)، 15 (1261)، 16 (1262)، 17 (1263)، صحیح مسلم/الجنائز 12 (939)، سنن ابی داود/الجنائز 33 (31463142)، سنن النسائی/الجنائز 28 (1882)، 30 (1884)، 36 (1895)، (تحفة الأشراف: 18094)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الجنائز 15 (990)، موطا امام مالک/الجنائز 1 (2)، مسند احمد (6/407، 408، 5/84، 85، 407) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: بیری کا پتہ استعمال کرنا مستحب ہے کیونکہ وہ میل کچیل کو صاف کرتا ہے، کیڑوں کو دفع کرتا ہے، اور بدبو کو بھی ختم کرتا ہے۔ ۲؎: «شعار» یعنی (اندر کا کپڑا) عربی میں اس کو کہتے ہیں جو کپڑا جسم سے لگا رہے، بطور تبرک آپ ﷺ نے اپنا کپڑا ام کلثوم رضی اللہ عنہا کو دیا، اور اس حدیث سے یہ بھی پتہ چلا کہ غسل میں کافور ملانا بھی مستحب ہے، بہتر یہ ہے کہ اخیر بار جو غسل دیں اس میں کافور ملا ہوا ہو، جیسا کہ حدیث میں مذکور ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
اس سند سے بھی ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے محمد بن سیرین کی سابقہ حدیث کی طرح مروی ہے اور حفصہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں یہ ہے کہ: ”ان کو طاق بار غسل دو“، اور اس میں یہ بھی ہے کہ: ”انہیں تین بار یا پانچ بار غسل دو، اور دائیں طرف کے اعضاء وضو سے غسل شروع کرو“۔ اور اس روایت میں یہ بھی ہے کہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ”ہم نے ان کے بالوں میں کنگھی کر کے تین چوٹیاں کر دیں“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/ الجنائز 9 (1254)، 13 (1258)، صحیح مسلم/الجنائز 12 (939)، سنن النسائی/الجنائز 34 (1889)، (تحفة الأشراف: 18115) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: امام ابن القیم نے کہا کہ بالوں میں سنت یہی ہے کہ ان کی تین چوٹیاں کی جائیں، صحیحین میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ان کے بالوں کی تین چوٹیاں کر دو، ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ ہم نے ان کا سر گوندھا، دو حصے کر کے دونوں چھاتیوں پر ڈال دیئے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”تم اپنی ران نہ کھولو، اور کسی زندہ یا مردہ کی ران نہ دیکھو“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الجنائز 32 (3140)، (تحفة الأشراف: 10133)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/146) (ضعیف جدًا) (بشربن آدم ضعیف ہیں، نیز سند میں دو جگہ انقطاع ہے، ابن جریج اور حبیب کے درمیان، اور حبیب اورعاصم کے درمیان، ملاحظہ ہو: الإرواء: 269)»
وضاحت: : ۱؎ اس حدیث کو مؤلف نے اس باب میں اس لئے ذکر کیا ہے کہ مردے کو غسل دینے میں اس کی ران نہ کھولیں اور نہ ستر بلکہ کپڑا ستر پر ڈھانپ کر غسل دیں کیونکہ ستر مردہ اور زندہ کا یکساں ہے۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے مردوں کو امانت دار لوگ غسل دیں“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6739، ومصباح الزجاجة: 517) (موضوع)» (اس کی سند میں بقیہ بن الولید مدلس ہیں، نیز ان کے شیخ مبشر بن عبید پر حدیث وضع کرنے کی تہمت ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 4395)
قال الشيخ الألباني: موضوع
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے کسی مردے کو غسل دیا، اسے کفن پہنایا، اسے خوشبو لگائی، اور اسے کندھا دے کر قبرستان لے گیا، اس پہ نماز جنازہ پڑھی، اور اگر کوئی عیب دیکھا تو اسے پھیلایا نہیں، تو وہ اپنے گناہوں سے اس طرح پاک ہو گیا جیسے وہ اس دن تھا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10134، ومصباح الزجاجة: 518) (ضعیف جدًا)» (اس کی سند میں عباد بن کثیر ہے جن کے بارے میں امام احمد نے کہا ہے کہ غفلت کے سبب جھوٹی حدیثیں روایت کرتے ہیں، نیز اس کی سند میں عمرو بن خالد کذاب ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کسی مردے کو غسل دے وہ خود بھی غسل کرے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الجنائز 17 (993)، (تحفة الأشراف: 12726)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الجنائز 39 (3161)، مسند احمد (2/272) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ حکم مستحب ہے، کیونکہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «ليس عليكم في غسل ميتكم إذا اغسلتموه أن ميتكم يموت طاهرًا، وليس بنجس فحسبكم أن يغسلوا أيديكم» ”جب تم لوگ اپنے میت کو غسل دو، تو تمہارے اوپر کچھ نہیں ہے، سوائے اس کہ تم اپنے ہاتھوں کو دھو لو، کیونکہ تمہارے میت پاک و صاف ہو کر وفات پائے ہیں وہ نجس نہیں ہیں“ نیز امام خطابی فرماتے ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ کسی بھی عالم نے میت کو غسل دینے سے یا اسے اٹھانے سے غسل کو واجب کہا ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|