كتاب الجنائز کتاب: صلاۃ جنازہ کے احکام و مسائل 25. بَابُ: مَا جَاءَ فِيمَنْ كَبَّرَ خَمْسًا باب: نماز جنازہ میں پانچ تکبیریں کہنے کا بیان۔
عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ ہمارے جنازوں میں چار بار اللہ اکبر کہا کرتے تھے، ایک بار انہوں نے ایک جنازہ میں پانچ تکبیرات کہیں، میں نے ان سے وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پانچ تکبیرات ۱؎ (بھی) کہتے تھے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الجنائز23 (961)، سنن ابی داود/الجنائز58 (3197)، سنن الترمذی/الجنائز37 (1023)، سنن النسائی/الجنائز76 (1984)، (تحفة الأشراف: 3671)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/368، 370، 371، 372) (صحیح)»
وضاحت: ۱ ؎: جنازے کی تکبیرات کے سلسلے میں چار سے لے کر نو تک کی حدیثیں اور آثار مروی ہیں، بعض آثار سے پتہ چلتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے بعد تک بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پانچ اور چھ تکبیرات کہی ہیں، خود نبی اکرم ﷺ نے بعض شہداء احد پر نو تکبیرات کہی ہیں، بعض لوگوں نے «كان آخر ماكبر رسول الله صلى الله عليه وسلم على الجنازة أربعا» چار سے زائد تکبیرات والی حدیثوں کے منسوخ ہونے کا دعویٰ کیا ہے، لیکن اس روایت کے تمام طرق ضعیف اور ناقابل استدلال ہیں، ان کی وجہ سے صحیح سندوں سے ثابت احادیث رد نہیں کی جا سکتیں، واضح رہے جب پانچ تکبیریں کہی جائیں تو پہلی تکبیر کے بعد دعائے ثنا پڑھے، دوسری کے بعد سورہ فاتحہ اور تیسری کے بعد نبی اکرم ﷺپر صلاۃ (درود) اور چوتھی کے بعد دعا اور پانچویں کے بعد سلام پھیرے۔ (ملاحظہ ہو: الروضہ الندیہ: ۱؍۴۱۶ -۴۱۹، احکام الجنائز للألبانی: ۱۴۱-۱۴۷) قال الشيخ الألباني: صحيح
عمرو بن عوف مزنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ تکبیرات کہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10782، ومصباح الزجاجة: 536) (صحیح)» (سابقہ حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں ابراہیم بن علی اور کثیر بن عبد اللہ ضعیف ہیں)
قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره
|