كتاب الجنائز کتاب: صلاۃ جنازہ کے احکام و مسائل 50. بَابُ: مَا جَاءَ فِي اتِّبَاعِ النِّسَاءِ الْجَنَائِزَ باب: عورتوں کے جنازے کے ساتھ جانے کا بیان۔
ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم عورتوں کو جنازے کے ساتھ جانے سے منع کر دیا گیا، لیکن ہمیں تاکیدی طور پر نہیں روکا گیا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجنائز29 (1278)، صحیح مسلم/الجنائز11 (938)، (تحفة الأشراف: 18139)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الجنائز 44 (3167)، مسند احمد (6/408) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ یہ ممانعت تنزیہی ہے، یعنی جنازہ میں نہ جانا زیادہ بہتر ہے، جمہور علماء کا یہی قول ہے، اور بعضوں کے نزدیک یہ امر حرام ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور کئی عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں، آپ نے پوچھا: ”تم لوگ کیوں بیٹھی ہوئی ہو“؟ انہوں نے کہا: ہم جنازے کا انتظار کر رہی ہیں، آپ نے پوچھا: ”کیا تم لوگ جنازے کو غسل دو گی“؟ انہوں نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا اسے اٹھاؤ گی“؟ انہوں نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا تم بھی ان لوگوں کے ساتھ جنازہ قبر میں اتارو گی جو اسے اتاریں گے“؟ انہوں نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ گناہ گار ہو کر ثواب سے خالی ہاتھ (اپنے گھروں کو) واپس جاؤ“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10269، ومصباح الزجاجة: 566) (ضعیف)» (اس کی سند میں دینار ابو عمر اور اسماعیل بن سلمان ضعیف ہیں، ابن الجوزی نے اس حدیث کو العلل المتناہیہ میں ذکر کیا ہے، نیز ملاحظہ ہو: 1لضعیفہ: 2742)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
|