كتاب الجنائز کتاب: صلاۃ جنازہ کے احکام و مسائل 1. بَابُ: مَا جَاءَ فِي عِيَادَةِ الْمَرِيضِ باب: مریض کی عیادت کا بیان۔
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان کی مسلمان پر حسن سلوک کے چھ حقوق ہیں: ۱۔ جب اس سے ملاقات ہو تو اسے سلام کرے، ۲۔ جب وہ دعوت دے تو اس کی دعوت قبول کرے، ۳۔ جب وہ چھینکے اور «الحمد لله» کہے تو جواب میں «يرحمك الله» کہے، ۴۔ جب وہ بیمار ہو تو اس کی عیادت (بیمار پرسی) کرے، ۵۔ جب اس کا انتقال ہو جائے تو اس کے جنازہ کے ساتھ جائے، ۶۔ اور اس کے لیے وہی پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الأدب 1 (2736)، (تحفة الأشراف: 10044)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/88، 89، 2/372، 412)، سنن الدارمی/الاستئذان 5 (2675) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف هو صحيح دون زيادة وحب وهي ثابتة في حديث آخر
ابومسعود (عقبہ بن عمرو) انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چار حقوق ہیں: جب اسے چھینک آئے اور وہ «الحمدلله» کہے تو اس کے جواب میں «يرحمك الله» کہے، جب وہ دعوت دے تو اس کی دعوت کو قبول کرے، جب اس کا انتقال ہو جائے تو اس کے جنازہ میں حاضر ہو، اور جب بیمار ہو جائے تو اس کی عیادت کرے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9979، ومصباح الزجاجة: 505)، مسند احمد (5/272) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان کے مسلمان پر پانچ حقوق ہیں: سلام کا جواب دینا، دعوت قبول کرنا، جنازہ میں حاضر ہونا، مریض کی عیادت کرنا، اور جب چھینکنے والا «الحمد لله» کہے، تو اس کے جواب میں «يرحمك الله» کہنا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 15092، ومصباح الزجاجة: 506)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الجنائز2 (1240)، صحیح مسلم/السلام 3 (2162)، سنن النسائی/الجنائز 52 (1940)، مسند احمد (2/321، 332، 357، 372، 388) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ پیدل چل کر میری عیادت کے لیے آئے، اور میں (مدینہ سے دور) قبیلہ بنو سلمہ میں تھا۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الوضوء 45 (194)، التفسیر 4 (4577)، المرضی 5 (5651)، الفرائض 1 (6723)، الاعتصام 8 (3015)، صحیح مسلم/الفرائض 2 (1616)، سنن ابی داود/الجنائز 2 (2886)، سنن الترمذی/الفرائض 7 (2097)، تفسیرالقرآن 5 (3015)، سنن النسائی/الطہارة 103 (138)، (تحفة الأشراف: 3028)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/الطہارة 56 (760) (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے: 2728) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مریض کی عیادت اس کی بیماری کے تین دن گزر جانے کے بعد فرماتے تھے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 718، و مصباح الزجاجة: 507) (موضوع)» (اس میں مسلمہ بن علی متروک اور منکر الحدیث ہے، ابن الجوزی نے اسے موضوعات میں داخل کیا ہے، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 145)
قال الشيخ الألباني: موضوع
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم مریض کے پاس جاؤ، تو اسے لمبی عمر کی امید دلاؤ، اس لیے کہ ایسا کہنے سے تقدیر نہیں پلٹتی، لیکن بیمار کا دل خوش ہوتا ہے“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الطب 35 (087)، (تحفة الأشراف: 4292) (ضعیف)» (موسیٰ بن محمد اس سند میں ضعیف ہیں، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 182)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بیمار کی عیادت کی، تو اس سے پوچھا: ”کیا کھانے کو جی چاہتا ہے؟“ اس نے کہا: گیہوں کی روٹی کھانے کی خواہش ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص کے پاس گیہوں کی روٹی ہو، وہ اسے اپنے بیمار بھائی کے پاس بھیج دے“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کا مریض کچھ کھانے کی خواہش کرے تو وہ اسے وہی کھلائے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6224، ومصباح الزجاجة: 508) (ضعیف)» (اس میں صفوان بن ھبیرہ لین الحدیث ہیں، نیز یہ حدیث (3440) نمبر پر آ رہی ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مریض کی عیادت کے لیے گئے، تو پوچھا: ”کیا کچھ کھانے کو جی چاہتا ہے؟ کیا کیک کھانا چاہتے ہو؟“ اس نے کہا: ہاں، تو لوگوں نے اس کے لیے کیک منگوایا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 1683، ومصباح الزجاجة: 509) (ضعیف)» (اس میں یزید بن ابان الرقاشی ضعیف ہیں، نیز 3441 نمبر پر یہ حدیث آ رہی ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”جب تم کسی مریض کے پاس جاؤ، تو اس سے اپنے لیے دعا کی درخواست کرو، اس لیے کہ اس کی دعا فرشتوں کی دعا کی طرح ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10649، ومصباح الزجاجة: 510) (ضعیف جدًا)» (اس سند میں انقطاع ہے، کیونکہ میمون بن مہران نے عمر رضی اللہ عنہ کو نہیں پایا ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا
|