سنن ابن ماجه
كتاب الجنائز
کتاب: صلاۃ جنازہ کے احکام و مسائل
64. بَابُ : مَا جَاءَ فِي ذِكْرِ مَرَضِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کا بیان۔
حدیث نمبر: 1620
حَدَّثَنَا أَبُو مَرْوَانَ الْعُثْمَانِيُّ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَا مِنْ نَبِيٍّ يَمْرَضُ إِلَّا خُيِّرَ بَيْنَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ"، قَالَتْ: فَلَمَّا كَانَ مَرَضُهُ الَّذِي قُبِضَ فِيهِ أَخَذَتْهُ بُحَّةٌ فَسَمِعْتُهُ، يَقُولُ:" مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ سورة النساء آية 69" فَعَلِمْتُ أَنَّهُ خُيِّرَ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”جو نبی بھی بیمار ہوا اسے دنیا یا آخرت میں رہنے کا اختیار دیا گیا“ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مرض میں مبتلا ہوئے جس میں آپ کا انتقال ہوا، تو آپ کو ہچکی آنے لگی، میں نے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ رہے تھے: «مع الذين أنعم الله عليهم من النبيين والصديقين والشهداء والصالحين» ”ان لوگوں کے ساتھ جن پر اللہ نے احسان کیا، انبیاء، صدیقین شہداء، اور صالحین میں سے“ تو اس وقت میں نے جان لیا کہ آپ کو اختیار دیا گیا ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المغازي 84 (4435، 4436)، تفسیر سورة النساء 13 (4586)، صحیح مسلم/فضائل الصحابة 13 (2444)، (تحفة الأشراف: 16338)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/176، 205، 269) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: والحديث السابق: في سنن ابن ماجه (الأصل:1616) حسن يغني عنه
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1620 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1620
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
نبیوں علیہ السلام کو دنیا میں رہنے یا اللہ کے پاس جانے کا اختیار دیا جانا انکے مقام ومرتبہ اور شرف منزلت کے اظہار کے لئے ہے۔
لیکن انبیائے کرام رضا بالقضا کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہوتے ہیں۔
اس لئے وہ دنیا کے مقابلے میں آخرت ہی کو ترجیح دیتے ہیں۔
اسی طرح ان کی وفات بھی اسی وقت پرہوتی ہے۔
جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے مقرر کر رکھا ہوتا ہے۔
اس مقررہ وقت میں تقدیم وتاخیر نہیں ہوتی۔
(2)
اس بیماری سے مراد مرض وفات ہے۔
ہر بیماری کے موقع پر اختیار دیا جانا مراد نہیں۔
(3)
اس موقع پر نبی اکرمﷺ جو آیت مبارکہ تلاوت فرمائی اس سے ارشاد مبارک (الحقني بالرفيق الاعليٰ)
کی وضاحت ہوگئی۔
(4)
بندوں کے یہ چار گروہ انعام یافتہ ہیں۔
ان میں سے نبوت کا منصب تو محض اللہ کی مشیت کےمطابق اس کے منتخب بندوں کو تفویض ہوا اس میں بندے کی محنت اور کوشش کا کوئی دخل نہیں۔
باقی تینوں درجات (صدیق، شہید، صالح)
ایسے ہیں کہ بندہ کوشش کرے تو اللہ کی توفیق سے انھیں حاصل کرسکتا ہے۔
مومن کو کوشش کرنی چاہیے کہ ان میں سے کوئی درجہ اسے حاصل ہوجائے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1620
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6295
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتی ہیں،میں سناکرتی تھی۔کہ کو ئی نبی فوت نہیں ہو تا یہاں تک کہ اس کو دنیا آخرت کے درمیان اختیار دیا جا تا ہے کہا: تو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مرض الموت میں یہ فر تے ہو ئے سنا۔اس وقت آپ کی آواز بھا ری ہو گئی تھی آپ فر رہے تھے:"ان لوگوں کے ساتھ جن پر اللہ تعا لیٰ نے انعام فر یا:"یعنی انبیاء،صدیقین شہداء اور صالحین (کے ساتھ) اور یہی بہترین رفیق ہیں۔(النساء آیت نمبر 69)"فرماتی ہیں تو میں نے سمجھ لیا... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:6295]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
اخذته بحة:
آپ کی آواز میں بھاری پن پیدا ہو گیا۔
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رفیق سے مراد وہ لوگ ہیں،
جو اس آیت میں بیان ہوئے ہیں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6295
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4435
4435. حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں (رسول اللہ ﷺ سے) سنا کرتی تھی کہ کوئی نبی اس وقت تک فوت نہیں ہوتا جب تک اس کو اختیار نہیں دیا جاتا کہ دنیا اختیار کرے یا آخرت۔ میں نے نبی ﷺ سے آپ کی مرضِ وفات میں سنا، جبکہ آپ کا گلہ بیٹھ گیا تھا، آپ یہ پڑھتے تھے: ”ان لوگوں کے ساتھ جن پر اللہ تعالٰی نے انعام کیا۔“ میں سمجھ گئی کہ اب آپ کو اختیار دیا گیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4435]
حدیث حاشیہ:
یعنی آپ نے آخرت کو اختیا ر کیا۔
واقدی نے کہا آنحضرت ﷺ نے دنیا میں آنے پر سب سے پہلے جو کلمہ زبان سے نکالا وہ اللہ اکبر تھا اور آخر کلمہ جو وفات کے وقت فرمایا، وہ الرفیق الاعلیٰ تھا۔
(وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4435
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4435
4435. حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں (رسول اللہ ﷺ سے) سنا کرتی تھی کہ کوئی نبی اس وقت تک فوت نہیں ہوتا جب تک اس کو اختیار نہیں دیا جاتا کہ دنیا اختیار کرے یا آخرت۔ میں نے نبی ﷺ سے آپ کی مرضِ وفات میں سنا، جبکہ آپ کا گلہ بیٹھ گیا تھا، آپ یہ پڑھتے تھے: ”ان لوگوں کے ساتھ جن پر اللہ تعالٰی نے انعام کیا۔“ میں سمجھ گئی کہ اب آپ کو اختیار دیا گیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4435]
حدیث حاشیہ:
1۔
ایک روایت میں ہے کہ میرے گمان کے مطابق آپ نے آخرت کو اختیار فرمایا ہے اور اب آپ ہمارے پاس نہیں رہیں گے۔
(صحیح البخاري، الرقاق، حدیث: 6509)
حضرت عائشہؓ نے رسول اللہ ﷺ کی تلاوت سے جو استنباط کیا اسی طرح کا استنباط ان کے والد گرامی حضرت ابو بکرؓ نے بھی کیا تھا چنانچہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”اللہ تعالیٰ نے ایک بندے کو دنیا اور آخرت میں سے ایک اختیار کرنے کے متعلق کہا ہے تو اس نے جو اللہ کے پاس ہے اسے اختیار کیا۔
“ حضرت ابو بکر ؓ نے یہ سن کر روتے ہوئے کہا:
ہمارے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔
(صحیح البخاري، مناقب الأنصار، حدیث: 3904)
حضرت ابو بکر ؓ نے رسول اللہ ﷺ کے اس کلام سے یہ سمجھا کہ رسول اللہ ﷺ کو اختیار دیا گیا ہے اور آپ نے آخرت کو پسند فرمایا ہے۔
اب آپ ہمارے پاس نہیں رہیں گے۔
2۔
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ بیٹی اور باپ کی فہم و فراست اللہ کی طرف سے ایک عطیہ تھی۔
(فتح الباري: 172/8)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4435
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4586
4586. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”ہر نبی کو اس کی بیماری میں اختیار دیا جاتا ہے کہ چاہے تو دنیا میں رہے اور چاہے تو آخرت کو پسند کرے۔“ اور آپ ﷺ کو مرض الموت میں جب سخت دھچکا لگا تو میں نے سنا، آپ فرما رہے تھے: ”ان لوگوں کی رفاقت جن پر اللہ تعالٰی نے انعام کیا، یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء اور صلحاء کی رفاقت۔“ میں اس وقت سمجھ گئی کہ اب آپ کو بھی اختیار دیا گیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4586]
حدیث حاشیہ:
1۔
ایک دوسری روایت میں اس کی مزید وضاحت ہے۔
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں:
رسول اللہ ﷺ تندرستی کی حالت میں فرمایا کرتے تھے:
" کسی نبی کو اس وقت تک موت نہیں آتی جب تک اسے جنت میں اس کا ٹھکانہ نہ دکھایا جائے، پھر اسے دنیا میں رہنے یا آخرت کی طرف سدھارنے کا اختیار دیا جاتا ہے۔
" آپ جب بیمار ہوئے اورآخر وقت آیا تو آپ کا سرمبارک میری ران پر رکھا ہوا تھا آپ بے ہوش ہوگئے۔
جب ہوش آیا تو چھت کی طرف دیکھنے لگے اور فرمایا:
"اے اللہ!میں رفیق اعلیٰ کی رفاقت چاہتا ہوں۔
" میں نے (دل میں)
کہا:
اب رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس نہیں رہیں گے۔
مجھے یقین ہوگیا کہ یہ وہی حدیث ہے جو آپ تندرستی کی حالت میں بیان کیاکرتے تھے۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4437)
2۔
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں:
ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی اللہ کے رسولﷺ!مجھے آپ سے بہت محبت ہے اور آپ مجھے میرے اہل وعیال سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔
میں گھر میں ہوتا ہوں تو آپ ہی کو یاد کرتا رہتا ہوں۔
جب تک آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر آپ کو دیکھ نہ لوں مجھے صبر نہیں آتا۔
جب مجھے آپ کی موت یاد آتی ہے تو پریشان ہوجاتا ہوں کہ آپ تو فردوس اعلیٰ میں انبیاء کرام ؑ کے ہمراہ ہوں گے اور میں جنت میں آپ کو نہیں دیکھ سکوں گا، مجھے اس کیفیت سے بہت ڈر لگتاہے۔
رسول اللہ ﷺ نے اسے کوئی جواب نہ دیا حتی کہ حضرت جبریل ؑ مذکورہ آیت لے کر نازل ہوئے۔
(المعجم الأوسط للطبراني: 296/1۔
رقم: 480)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4586