كتاب الجنائز کتاب: صلاۃ جنازہ کے احکام و مسائل 5. بَابُ: مَا جَاءَ فِي الْمُؤْمِنِ يُؤْجَرُ فِي النَّزْعِ باب: مومن کو موت کی سختی پر اجر و ثواب حاصل ہوتا ہے۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس گئے، وہاں پر عائشہ رضی اللہ عنہا کے ایک رشتہ دار کا موت سے دم گھٹ رہا تھا، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا کا رنج دیکھا تو ان سے فرمایا: ”تم اپنے رشتہ دار پر غم زدہ نہ ہو، کیونکہ یہ اس کی نیکیوں میں سے ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 17383، ومصباح الزجاجة: 514) (ضعیف)» (اس کی سند میں ولید بن مسلم ہیں، جو کثیر التدلیس و التسویہ ہیں، گرچہ یہاں پر صیغہ تحدیث کا ہے، لیکن رواة کے اسقاط سے تدلس التسویة کا احتمال باقی ہے کہ درمیان سے کوئی راوی ساقط کر دیا ہو، ملاحظہ ہو: تہذب الکمال: 31/97)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن ایسی حالت میں مرتا ہے کہ اس کی پیشانی پسینہ آلود ہوتی ہے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الجنائز 10 (982)، سنن النسائی/الجنائز 5 (1829)، (تحفة الأشراف: 1992)، وقد أخرجہ: (حم 5/350، 357، 360) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی مومن موت کی شدت سے دو چار ہوتا ہے، یا موت اسے اچانک اس حال میں پا لیتی ہے کہ وہ حلال رزق اور فرائض کی ادائیگی کے لیے اس قدر کوشاں رہتا ہے کہ اس کی پیشانی عرق آلود رہتی ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: بندے سے لوگوں کی پہچان کب ختم ہو جاتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب وہ (موت کے فرشتوں کو) دیکھ لیتا ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9130، ومصباح الزجاجة: 515) (ضعیف جدًا)» (اس میں نصر بن حماد ہے، جس پر حدیث گھڑنے کی تہمت ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا
|