اسود کہتے ہیں کہ لوگوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان کیا کہ علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی تھے، تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: آپ نے ان کو کب وصیت کی؟ میں تو آپ کو اپنے سینے سے لگائے ہوئے تھی، یا گود میں لیے ہوئے تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طشت منگوایا، پھر آپ میری گود میں لڑھک گئے، اور وفات پا گئے، مجھے محسوس تک نہ ہوا، پھر آپ نے وصیت کب کی؟۔
It was narrated that Aswad said:
“They said in ‘Aishah’s presence that ‘Ali was appointed (by the Prophet (ﷺ) before he died), and she said: ‘When was he appointed? He (the Prophet (ﷺ)) was resting against my bosom, or in my lap, and he called for a basin, then he became limp in my lap and died, and I did not realize it. So when did he (ﷺ) appoint him?’”
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1626
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) شیعہ فرقے کے خود ساختہ مسائل میں سے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے اپنی زندگی میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا جانشین نامزد فرما دیا تھا۔ لیکن اس دعوے کی کوئی مضبوط دلیل نہیں۔ اگر رسول اللہ ﷺ نے کسی کا تعین فرمایا ہوتا تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کو مشورہ کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ بلکہ رسول اللہﷺ کی نظر میں حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی جانشینی کے زیادہ لائق تھے۔ خود حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی سقیفہ بنو ساعدہ میں یہ نہیں فرمایا کہ تمھیں مشورہ کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ مجھے نامزد کیا جا چکا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور حکومت میں بھی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس امر کا اظہار نہیں فرمایا۔ بلکہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد بھی انھیں خلافت کی ذمہ داری اٹھانے میں تامل تھا۔ بعض لوگوں کے اصرار پر انھوں نے یہ منصب قبول فرمایا تھا۔ تفصیلات تاریخ کی کتابوں میں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔
(2) موت کی سختی کا ایک جسمانی اثر ہے۔ جو نیک لوگوں پر بھی ظاہر ہوجاتا ہے۔ ایک روحانی سختی ہے۔ جس کا تعلق فرشتوں کے روح قبض کرنے سے ہے۔ یہ نیک مومن افراد پر نہیں ہوتی۔ رسول اللہ ﷺ نے روح پرواز کرنے سے پہلے کچھ گھبراہٹ محسوس کی لیکن جسم سے روح کی جُدائی اس قدر غیر محسوس طریقے پر عمل میں آئی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو احسان تب ہوا جب روح اقدس عالم بالا میں پرواز کرچکی تھی۔
(3) رسول اللہ ﷺ شدت ضعف کی وجہ سے پیشاب کی حاجت کےلئے بستر سے اترنے میں مشکل محسوس کررہے تھےاس لئے برتن طلب فرمایا تاکہ اس حاجت سے فارغ ہو جایئں اور جسم اطہر اور لباس مبارک بھی قطرات سے محفوظ رہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریمﷺ کی نظر میں جسمانی طہارت وصفائی کی اہمیت کس قدر زیادہ تھی۔
(4) نبی کریمﷺ نے برتن طلب فرمایا لیکن یہ حاجت پوری کرنے کی نوبت نہ آئی۔ اس سے علم غیب کے عقیدے کی نفی ہوتی ہے۔ اگر نبی کریمﷺ کوعلم ہوتا کہ برتن کے استعمال کی ضرورت نہیں پڑے گی تو طلب نہ فرماتے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1626