كتاب الجنائز کتاب: صلاۃ جنازہ کے احکام و مسائل 59. بَابُ: مَا جَاءَ فِي الطَّعَامِ يُبْعَثُ إِلَى أَهْلِ الْمَيِّتِ باب: میت کے گھر والوں کے یہاں کھانا بھیجنے کا بیان۔
عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جعفر کی موت کی جب خبر آئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جعفر کے گھر والوں کے لیے کھانا تیار کرو، اس لیے کہ ان کے پاس ایسی خبر آئی ہے جس نے ان کو مشغول کر دیا ہے، یا ان کے پاس ایسا معاملہ آ پڑا ہے جو ان کو مشغول کئے ہوئے ہے“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الجنائز 26 (3132)، سنن الترمذی/الجنائز 21 (998)، (تحفة الأشراف: 5217) (حسن)»
قال الشيخ الألباني: حسن
اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب جعفر رضی اللہ عنہ قتل کر دئیے گئے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر والوں کے پاس آئے، اور فرمایا: ”جعفر کے گھر والے اپنی میت کے مسئلہ میں مشغول ہیں، لہٰذا تم لوگ ان کے لیے کھانا بناؤ“۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ طریقہ برابر چلا آ رہا تھا یہاں تک کہ اس میں بدعت آ داخل ہوئی، تو اسے چھوڑ دیا گیا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 1576، ومصباح الزجاجة: 585)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/370) (حسن)» (سند میں ام عیسیٰ اور ام عون مجہول ہیں، لیکن شاہد کی بناء پر یہ حدیث حسن ہے)
وضاحت: ۱؎: مطلب یہ ہے کہ میت والوں کو کھانا بھیجنا پہلے سنت تھا پھر لوگوں نے اس میں فخر و مباہات کے جذبہ سے تکلف شروع کیا اور بلاضرورت انواع و اقسام کے کھانے پکا کر بھیجنے لگے، دوسرے یہ کہ میت والوں کے پاس ساری برادری اور کنبے والوں نے جمع ہونا شروع کیا، اور کھانا بھیجنے والوں کو ان سب لوگوں کے موافق کھانا بھیجنا پڑا۔ اس لئے یہ امر بدعت سمجھ کر ترک کر دیا گیا، چنانچہ امام احمد اور ابن ماجہ نے باسناد صحیح جریر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ ہم میت والوں کے پاس جمع ہونا، اور میت کے دفن کے بعد کھانا بھیجنا دونوں کو نوحہ میں شمار کرتے تھے، اس پر بھی صحابی یا تابعی کا قول حدیث مرفوع کے مقابل نہیں ہو سکتا، اور محدثین نے میت والوں کے پاس کھانا بھیجنا مستحب رکھا ہے۔ «واللہ اعلم» ۔ قال الشيخ الألباني: حسن
|