كِتَاب الطَّهَارَةِ کتاب: طہارت کے مسائل 85. باب فِي الإِكْسَالِ باب: دخول سے انزال کے بغیر غسل کے حکم کا بیان۔
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو یہ رخصت ابتدائے اسلام میں کپڑوں کی کمی کی وجہ سے دی تھی (کہ اگر کوئی دخول کرے اور انزال نہ ہو تو غسل واجب نہ ہو گا) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف دخول کرنے اور انزال نہ ہونے کی صورت میں غسل کرنے کا حکم فرما دیا، اور غسل نہ کرنے کو منع فرما دیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: «نهى عن ذلك» یعنی ممانعت سے مراد «الماء من الماء» (غسل منی نکلنے کی صورت میں واجب ہے) والی حدیث پر عمل کرنے سے منع کر دیا ہے۔
تخریج الحدیث: «أخرجه: الترمذي/كتاب الطهارة / باب: ما جاء أن الماء من الماء/ ح: 111، 110، وابن ماجه/أبواب التيمم/ باب: ما جاء فى وجوب الغسل من التقاء الختانين/ ح: 609 من حديث ابن شهاب الزهري عن سهل بن سعد به، وقال الترمذي: ”حسن صحيح“، وصرح الزهري بالسماع من سهل بن سعد عند ابن خزيمة، ح:226 وغيره، رواه البيهقي: 1/ 165 من حديث أبى داود به، (تحفة الأشراف: 27) (صحيح)»
اگلی سند نیز دیگر اسانید سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ مؤلف کی سند میں ایک مبہم راوی ہیں، علماء کی تصریح کے مطابق یہ مبہم راوی ابوحازم ہیں، نیز زہری خود سہل سے بھی براہ راست روایت کرتے ہیں۔ دیکھئے: حاشیہ ترمذی از علامہ احمد محمد شاکر۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے مجھ سے بیان کیا ہے کہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جو یہ فتوی دیا کرتے تھے کہ پانی، پانی سے (لازم آتا) ہے (یعنی منی کے انزال ہونے پر ہی غسل واجب ہوتا ہے) یہ رخصت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدائے اسلام میں دی تھی پھر اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل کرنے کا حکم دیا۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبله، أخرجه: الدارمي/ الطهارة، باب: الماء من الماء، ح:766 عن محمد بن مهران الجمال به، ورواه اابن ماجه/أبواب التيمم/. باب: ما جاء فى وجوب الغسل من التقاء الختانين/ ح: 609، (تحفة الأشراف: 27) (صحيح)»
وضاحت: تفصیل اس مسئلے کی یہ ہے کہ ابتدائے اسلام میں زوجین کے لیے اجازت تھی کہ مباشرت کے موقع پر اگر انزال نہ ہو تو غسل واجب نہیں۔ اس کیفیت کو ایک بلیغ انداز میں بیان فرمایا ”پانی پانی سے (لازم آتا) ہے۔“ یعنی غسل کا پانی منی کا پانی نکلنے ہی پر لازم آتا ہے، مگر یہ حکم منسوخ ہو گیا اور فرمایا ”ختنہ ختنے سے مل جائے تو غسل واجب ہو جاتا ہے۔“ جیسے کہ اگلی حدیث ۲۱۶ میں ذکر آ رہا ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب مرد عورت کی چاروں شاخوں کے درمیان بیٹھے اور مرد کا ختنہ عورت کے ختنہ سے مل جائے تو غسل واجب ہو گیا۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه: صحيح البخاري/كتاب الغسل/ باب إذا التقى الختانان:/ ح: 291 من حديث هشام، صحيح مسلم/كتاب الحيض/ باب نسخ: الماء من الماء ووجوب الغسل بالتقاء الختانين:/ فواد: 348، دارالسلام: 783 من حديث شعبة به.، سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/ باب: وجوب الغسل إذا التقى الختانان/ ح: 191، سنن ابن ماجه/أبواب التيمم/ باب: ما جاء فى وجوب الغسل من التقاء الختانين/ ح: 610، (تحفة الأشراف: 14659)، وقد أخرجه: مسند احمد (2/234، 247، 393، 471، 520)، سنن الدارمي/الطهارة 75 (788) (صحيح)»
وضاحت: اس صورت میں خواہ انزال ہو یا نہ غسل واجب ہو گا۔ فقہاء و محدثین اتصال ختان کا معنی یہ مراد لیتے ہیں کہ حشفہ غائب ہو جائے۔ ( «ابن ماجہ، باب ماجاء فی وجوب الغسل اذا التقی الختانان حدیث ۶۱۱، و جامع الترمذی حدیث ۱۰۸») قال الشيخ الألباني: صحيح
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانی پانی سے ہے“ (یعنی منی نکلنے سے غسل واجب ہوتا ہے) اور ابوسلمہ ایسا ہی کرتے تھے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «أخرجه: صحيح مسلم/كتاب الحيض/ باب إنما الماء من الماء:/ فواد:343، دارالسلام: 775، (تحفة الأشراف: 4424)، وقد أخرجه: مسند احمد (3/29، 36، 47) (صحيح)»
وضاحت: ۱؎: کیونکہ وہ اسے منسوخ نہیں مانتے تھے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|