سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
كِتَاب الطَّهَارَةِ
کتاب: طہارت کے مسائل
Purification (Kitab Al-Taharah)
131. باب فِي الرُّخْصَةِ فِي تَرْكِ الْغُسْلِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ
باب: جمعہ کے دن غسل چھوڑ دینے کی اجازت کا بیان۔
Chapter: The Permissibility Of Not Performing Ghusl On Friday.
حدیث نمبر: 352
Save to word اعراب English
(موقوف) حدثنا مسدد، حدثنا حماد بن زيد، عن يحيى بن سعيد، عن عمرة، عن عائشة، قالت:" كان الناس مهان انفسهم، فيروحون إلى الجمعة بهيئتهم، فقيل لهم: لو اغتسلتم".
(موقوف) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" كَانَ النَّاسُ مُهَّانَ أَنْفُسِهِمْ، فَيَرُوحُونَ إِلَى الْجُمُعَةِ بِهَيْئَتِهِمْ، فَقِيلَ لَهُمْ: لَوِ اغْتَسَلْتُمْ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ لوگ اپنے کام خود کرتے تھے، اور جمعہ کے لیے اسی حالت میں چلے جاتے تھے (ان کی بو سے لوگوں کو تکلیف ہوتی تھی، جب اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا) تو ان لوگوں سے کہا گیا: کاش تم لوگ غسل کر کے آتے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الجمعة 16 (903)، والبیوع 15 (2071)، صحیح مسلم/الجمعة 1 (847)، (تحفة الأشراف: 17935)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/الجمعة 9 (1380)، مسند احمد (6/62) (صحیح)» ‏‏‏‏

Aishah said: The people (mostly) were workers and they would come for Friday prayer in the same condition, so it was said to them: If only you were to perform Ghusl.
USC-MSA web (English) Reference: Book 1 , Number 352


قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 353
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن مسلمة، حدثنا عبد العزيز يعني ابن محمد، عن عمرو بن ابي عمرو، عن عكرمة، ان اناسا من اهل العراق جاءوا، فقالوا: يا ابن عباس، اترى الغسل يوم الجمعة واجبا؟ قال: لا، ولكنه اطهر وخير لمن اغتسل، ومن لم يغتسل فليس عليه بواجب،" وساخبركم كيف بدء الغسل، كان الناس مجهودين يلبسون الصوف ويعملون على ظهورهم وكان مسجدهم ضيقا مقارب السقف إنما هو عريش، فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم في يوم حار وعرق الناس في ذلك الصوف حتى ثارت منهم رياح آذى بذلك بعضهم بعضا، فلما وجد رسول الله صلى الله عليه وسلم تلك الريح، قال: ايها الناس، إذا كان هذا اليوم فاغتسلوا وليمس احدكم افضل ما يجد من دهنه وطيبه"، قال ابن عباس: ثم جاء الله بالخير، ولبسوا غير الصوف وكفوا العمل ووسع مسجدهم وذهب بعض الذي كان يؤذي بعضهم بعضا من العرق.
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو، عَنْ عِكْرِمَةَ، أَنَّ أُنَاسًا مِنْ أَهْلِ الْعِرَاقِ جَاءُوا، فَقَالُوا: يَا ابْنَ عَبَّاسٍ، أَتَرَى الْغُسْلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَاجِبًا؟ قَالَ: لَا، وَلَكِنَّهُ أَطْهَرُ وَخَيْرٌ لمن اغتسل، ومن لم يغتسل فليس عليه بواجب،" وَسَأُخْبِرُكُمْ كَيْفَ بَدْءُ الْغُسْلِ، كَانَ النَّاسُ مَجْهُودِينَ يَلْبَسُونَ الصُّوفَ وَيَعْمَلُونَ عَلَى ظُهُورِهِمْ وَكَانَ مَسْجِدُهُمْ ضَيِّقًا مُقَارِبَ السَّقْفِ إِنَّمَا هُوَ عَرِيشٌ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي يَوْمٍ حَارٍّ وَعَرِقَ النَّاسُ فِي ذَلِكَ الصُّوفِ حَتَّى ثَارَتْ مِنْهُمْ رِيَاحٌ آذَى بِذَلِكَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا، فَلَمَّا وَجَدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تِلْكَ الرِّيحَ، قَالَ: أَيُّهَا النَّاسُ، إِذَا كَانَ هَذَا الْيَوْمَ فَاغْتَسِلُوا وَلْيَمَسَّ أَحَدُكُمْ أَفْضَلَ مَا يَجِدُ مِنْ دُهْنِهِ وَطِيبِهِ"، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: ثُمَّ جَاءَ اللَّهُ بِالْخَيْرِ، وَلَبِسُوا غَيْرَ الصُّوفِ وَكُفُوا الْعَمَلَ وَوُسِّعَ مَسْجِدُهُمْ وَذَهَبَ بَعْضُ الَّذِي كَانَ يُؤْذِي بَعْضُهُمْ بَعْضًا مِنَ الْعَرَقِ.
عکرمہ کہتے ہیں کہ عراق کے کچھ لوگ آئے اور کہنے لگے: اے ابن عباس! کیا جمعہ کے روز غسل کو آپ واجب سمجھتے ہیں؟ آپ نے کہا: نہیں، لیکن جو غسل کرے اس کے لیے یہ بہتر اور پاکیزگی کا باعث ہے، اور جو غسل نہ کرے اس پر واجب نہیں ہے، اور میں تم کو بتاتا ہوں کہ غسل کی ابتداء کیسے ہوئی: لوگ پریشان حال تھے، اون پہنا کرتے تھے، اپنی پیٹھوں پر بوجھ ڈھوتے تھے، ان کی مسجد بھی تنگ تھی، اس کی چھت نیچی تھی بس کھجور کی شاخوں کا ایک چھپر تھا، (ایک بار) ایسا ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سخت گرمی کے دن نکلے، لوگوں کو کمبل پہننے کی وجہ سے بےحد پسینہ آیا یہاں تک کہ ان کی بدبو پھیلی اور اس سے ایک دوسرے کو تکلیف ہوئی، تو جب یہ بو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو محسوس ہوئی تو آپ نے فرمایا: لوگو! جب یہ دن ہوا کرے تو تم غسل کر لیا کرو، اور اچھے سے اچھا جو تیل اور خوشبو میسر ہو لگایا کرو، ابن عباس کہتے ہیں: پھر اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو وسعت دی، وہ لوگ اون کے علاوہ کپڑے پہننے لگے، خود محنت کرنے کی ضرورت نہیں رہی، ان کی مسجد بھی کشادہ ہو گئی، اور پسینے کی بو سے ایک دوسرے کو جو تکلیف ہوتی تھی ختم ہو گئی۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 6179)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الجمعة 6 (883)، مسند احمد (6/276) (حسن)» ‏‏‏‏

Amr bin Abi Amr and Ikrimah reported: Some people of Iraq came and said: Ibn Abbas, do you regard taking a bath on Friday as obligatory ? He said: No, it is only a means of cleanliness, and is better for one who washes oneself. Anyone who does not take a bath, it is not essential for him. I inform you how the bath (on Friday) commenced. The people were poor and used to wear woolen clothes, and would carry loads on their backs. Their mosque was small and its rood was lowered down. It was a sort of trellis of vine. The Messenger of Allah ﷺ once came out on a hot day and the people perspired profusely in the woolen clothes so much so that foul smell emitted from them and it caused trouble to each other. When the Messenger of Allah ﷺ found the foul smell, he said: O people, when this day (Friday) comes, you should take bath and every one should anoint the best oil and perfume one has. Ibn Abbas then said: Then Allah, the Exalted, provided wealth (to the people) and they wore clothes other than the woolen, and were spared from work, and their mosque became vast. The foul smell that caused trouble to them became non-existent.
USC-MSA web (English) Reference: Book 1 , Number 353


قال الشيخ الألباني: حسن
حدیث نمبر: 354
Save to word اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابو الوليد الطيالسي، حدثنا همام، عن قتادة، عن الحسن، عن سمرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من توضا يوم الجمعة فبها ونعمت، ومن اغتسل فهو افضل".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ تَوَضَّأَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَبِهَا وَنِعْمَتْ، وَمَنِ اغْتَسَلَ فَهُوَ أَفْضَلُ".
سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے جمعہ کے دن وضو کیا، تو اس نے سنت پر عمل کیا اور یہ اچھی بات ہے، اور جس نے غسل کیا تو یہ افضل ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الجمعة 5 (497)، سنن النسائی/الجمعة 9 (1381)، مسند احمد (5/15، 16، 22)، (تحفة الأشراف: 4587) (حسن) (یہ حدیث متعدد صحابہ سے مروی ہے اور سب کی سندیں ضعیف ہیں، یہ سند بھی ضعیف ہے کیونکہ حسن بصری رحمہ اللہ کا سمرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث عقیقہ کے سوا سماع ثابت نہیں، ہاں تمام طرق سے تقویت پا کر یہ حدیث حسن لغیرہ کے درجہ تک پہنچ جاتی ہے،متن کی تائید صحیح احادیث سے بھی ہوتی ہے)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: اس حدیث میں اس بات کی صراحت ہے کہ جمعہ کے لئے وضو کافی ہے اور غسل افضل ہے فرض نہیں۔

Narrated Samurah: If any one of you performs ablution (on Friday) that is all right; and if any of you takes a bath, that is better.
USC-MSA web (English) Reference: Book 1 , Number 354


قال الشيخ الألباني: حسن

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.