كِتَاب الطَّهَارَةِ کتاب: طہارت کے مسائل 25. باب السِّوَاكِ باب: مسواک کا بیان۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر میں مومنوں پر دشوار نہ سمجھتا تو ان کو نماز عشاء کو دیر سے پڑھنے، اور ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الطھارة 15 (252)، سنن النسائی/الطھارة 7 (7)، سنن ابن ماجہ/الصلاة 7 (287)، موطا امام مالک/الطھارة 32 (114)، (تحفة الأشراف: 13673)، وقد أخرجہ: خ/الجمعة 8 (887)، التمني 9 (7240)، سنن الترمذی/الطہارة 18(22)، حم (2/245، 250، 399، 400،460، 517، 531)، سنن الدارمی/الطھارة 18 (710) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح دون جملة العشاء
زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”اگر میں اپنی امت پر دشواری محسوس نہ کرتا تو ہر نماز کے وقت انہیں مسواک کرنے کا حکم دیتا“۔ ابوسلمہ (ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن) کہتے ہیں: میں نے زید بن خالد رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ نماز کے لیے مسجد میں بیٹھے رہتے اور مسواک ان کے کان پر ہوتی جیسے کاتب کے کان پر قلم لگا رہتا ہے، جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو مسواک کر لیتے (پھر کان کے اوپر رکھ لیتے)۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الطھارة 18 (23)، (تحفة الأشراف: 3766)، مسند احمد (4/116) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
محمد بن یحییٰ بن حبان نے عبداللہ بن عبداللہ بن عمر سے کہا: آپ بتائیں کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ہر نماز کے لیے وضو کرنے کا سبب (خواہ وہ باوضو ہوں یا بے وضو) کیا تھا؟ تو انہوں نے کہا: مجھ سے اسماء بنت زید بن خطاب نے بیان کیا کہ عبداللہ بن حنظلہ بن ابی عامر رضی اللہ عنہ نے ان سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر نماز کے لیے وضو کرنے کا حکم دیا گیا، خواہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو سے ہوں یا بے وضو، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ حکم دشوار ہوا، تو آپ کو ہر نماز کے لیے مسواک کا حکم دیا گیا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا خیال تھا کہ ان کے پاس (ہر نماز کے لیے وضو کرنے کی) قوت ہے، اس لیے وہ کسی بھی نماز کے لیے اسے چھوڑتے نہیں تھے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 5247)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/225)، سنن الدارمی/الطھارة 3 (684) (حسن)»
قال الشيخ الألباني: حسن
|