ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو یہ رخصت ابتدائے اسلام میں کپڑوں کی کمی کی وجہ سے دی تھی (کہ اگر کوئی دخول کرے اور انزال نہ ہو تو غسل واجب نہ ہو گا) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف دخول کرنے اور انزال نہ ہونے کی صورت میں غسل کرنے کا حکم فرما دیا، اور غسل نہ کرنے کو منع فرما دیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: «نهى عن ذلك» یعنی ممانعت سے مراد «الماء من الماء»(غسل منی نکلنے کی صورت میں واجب ہے) والی حدیث پر عمل کرنے سے منع کر دیا ہے۔
تخریج الحدیث: «أخرجه: الترمذي/كتاب الطهارة / باب: ما جاء أن الماء من الماء/ ح: 111، 110، وابن ماجه/أبواب التيمم/ باب: ما جاء فى وجوب الغسل من التقاء الختانين/ ح: 609 من حديث ابن شهاب الزهري عن سهل بن سعد به، وقال الترمذي: ”حسن صحيح“، وصرح الزهري بالسماع من سهل بن سعد عند ابن خزيمة، ح:226 وغيره، رواه البيهقي: 1/ 165 من حديث أبى داود به، (تحفة الأشراف: 27) (صحيح)» اگلی سند نیز دیگر اسانید سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ مؤلف کی سند میں ایک مبہم راوی ہیں، علماء کی تصریح کے مطابق یہ مبہم راوی ابوحازم ہیں، نیز زہری خود سہل سے بھی براہ راست روایت کرتے ہیں۔ دیکھئے: حاشیہ ترمذی از علامہ احمد محمد شاکر۔
Ubayy bin Kaab reported: The Messenger of Allah ﷺ made a concession in the early days of Islam on account of the paucity of clothes that one should not take a bath if one has sexual intercourse (and has no seminal emission). But later on her commanded to take a bath in such a case and prohibited its omission.
USC-MSA web (English) Reference: Book 1 , Number 214
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مشكوة المصابيح (448) وصرح الزھري بالسماع من سھل بن سعد عند ابن خزيمة (226) وغيره