كِتَاب الطَّهَارَةِ کتاب: طہارت کے مسائل 83. باب فِي الْمَذْىِ باب: مذی کا بیان۔
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک ایسا آدمی تھا جسے مذی ۱؎ بہت نکلا کرتی تھی، تو میں باربار غسل کرتا تھا، یہاں تک کہ میری پیٹھ پھٹ گئی ۲؎ تو میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا، یا آپ سے اس کا ذکر کیا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم ایسا نہ کرو، جب تم مذی دیکھو تو صرف اپنے عضو مخصوص کو دھو ڈالو اور وضو کر لو، جیسے نماز کے لیے وضو کرتے ہو، البتہ جب پانی ۳؎ اچھلتے ہوئے نکلے تو غسل کرو۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه: سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/ باب: الغسل من المني/ ح: 193 عن قتيبة به، وصححه ابن خزيمة، ح:20، وابن حبان (موارد)، ح: 241، سنن نسائي/صفة الوضوء/ باب: ما ينقض الوضوء وما لا ينقض الوضوء من المذى/ ح: 152، سنن نسائي/كتاب الغسل والتيمم/ باب: الوضوء من المذى/ ح: 436، (تحفة الأشراف: 10079)، وقد أخرجه: صحيح البخاري/كتاب الغسل/ باب غسل المذي والوضوء منه:/ ح: 269، سنن ترمذي/كتاب الطهارة/ باب ما جاء فى المني والمذي/ ح: 114، سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/ باب: الوضوء من المذي/ ح: 504، مسند احمد (1/109، 125، 145) (صحيح)»
وضاحت: ۱؎: مذی ایسی رطوبت کو کہتے ہیں جو عورت سے بوس وکنار کے وقت مرد کے ذکر سے بغیر اچھلے نکلتی ہے۔ ۲؎: یعنی ٹھنڈے پانی سے غسل کرتے کرتے پیٹھ کی کھال پھٹ گئی، جیسے سردی میں ہاتھ پاؤں پھٹ جاتے ہیں۔ ۳؎: اس سے مراد منی ہے یعنی وہ رطوبت جو شہوت کے وقت اچھل کر نکلتی ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (اپنے لیے) یہ مسئلہ پوچھنے کا حکم دیا کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس جائے اور مذی نکل آئے تو کیا کرے؟ (انہوں نے کہا) چونکہ میرے نکاح میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی (فاطمہ رضی اللہ عنہا) ہیں، اس لیے مجھے آپ سے یہ مسئلہ پوچھنے میں شرم آتی ہے۔ مقداد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: تو میں نے جا کر پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی اسے پائے تو اپنی شرمگاہ کو دھو ڈالے اور وضو کرے جیسے نماز کے لیے وضو کرتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه: سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/ باب: الوضوء من المذي/ ح: 505، وقد أخرجه: سنن نسائي/صفة الوضوء/ باب: ما ينقض الوضوء وما لا ينقض الوضوء من المذى/ ح: 156، سنن نسائي/كتاب الغسل والتيمم/ باب: الاختلاف على بكير/ ح: 441 من حديث مالك به، وهو فى موطا امام مالك (يحيٰی)/الطهارة 13 (53): 40/1، وللحديث شواهد عند مسلم، ح: 303 وغيره، (تحفة الأشراف: 11544)، مسند احمد (6/4، 5) (صحيح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عروہ سے روایت ہے کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے مقداد رضی اللہ عنہ سے کہا، پھر راوی نے آگے اسی طرح کی روایت ذکر کی، اس میں ہے کہ مقداد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چاہیئے کہ وہ شرمگاہ (عضو مخصوص) اور فوطوں کو دھو ڈالے۔“ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے ثوری اور ایک جماعت نے ہشام سے، ہشام نے اپنے والد عروہ سے، عروہ نے مقداد رضی اللہ عنہ سے، مقداد رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ سے، اور علی رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً روایت کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «أخرجه: سنن نسائي/صفة الوضوء/ باب: ما ينقض الوضوء وما لا ينقض الوضوء من المذى/ ح: 153 من حديث هشام بن عروة به وسنده منقطع، (تحفة الأشراف: 10241)، وقد أخرجه: مسند احمد (1/124) (صحيح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے مقداد رضی اللہ عنہ سے کہا، پھر راوی نے اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اور اسے مفضل بن فضالہ، ایک جماعت، ثوری اور ابن عیینہ نے ہشام سے، ہشام نے اپنے والد عروہ سے، عروہ نے علی بن ابی طالب سے روایت کیا ہے، نیز اسے ابن اسحاق نے ہشام بن عروہ سے، انہوں نے اپنے والد عروہ سے، عروہ نے مقداد رضی اللہ عنہ سے اور مقداد نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے، مگر اس میں لفظ «أنثييه» ”دونوں فوطوں کا“ ذکر نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر الحديث السابق، ح:208، (تحفة الأشراف: 10241) (صحيح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے مذی سے بڑی تکلیف ہوتی تھی، باربار غسل کرتا تھا، لہٰذا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: ”اس میں صرف وضو کافی ہے“، میں نے کہا: اللہ کے رسول! کپڑے میں جو لگ جائے اس کا کیا ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک چلو پانی لے کر کپڑے پر جہاں تم سمجھو کہ مذی لگ گئی ہے چھڑک لو۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه:سنن ترمذي/كتاب الطهارة/ باب ما جاء فى المذي يصيب الثوب/ ح: 115، سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/ باب: الوضوء من المذي/ ح: 506 من حديث محمد بن إسحاق بن يسار به، وقال الترمذي: ”حسن صحيح“، وصححه ابن حبان ح: 240، (تحفة الأشراف: 4664)، وقد أخرجه: مسند احمد (3/485)، سنن الدارمي/الطهارة 49 (750) (حسن)»
قال الشيخ الألباني: حسن
عبداللہ بن سعد انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس چیز کے بارے میں پوچھا جو غسل کو واجب کرتی ہے، اور وہ پانی جو پانی کے بعد نکلتا ہے؟ (یعنی پیشاب کے بعد اس کا کیا حکم ہے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ مذی ہوتی ہے، اور ہر نر (مرد) کی مذی نکلتی ہے، لہٰذا تم اپنی شرمگاہ اور اپنے دونوں فوطوں کو دھو ڈالو، اور وضو کرو جیسے نماز کے لیے وضو کرتے ہو۔“
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 5328)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الطھارة 100 (133)، سنن ابن ماجہ/الطھارة 130 (651)، مسند احمد (4/342، 5/293) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن سعد انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: جب میری بیوی حائضہ ہو تو اس کی کیا چیز میرے لیے حلال ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے لیے لنگی (تہبند) کے اوپر والا حصہ درست ہے“، نیز اس کے ساتھ حائضہ کے ساتھ کھانے کھلانے کا بھی ذکر کیا، پھر راوی نے (سابقہ) پوری حدیث بیان کی۔
تخریج الحدیث: «أخرجه: اختصره الترمذي/كتاب الطهارة / باب ما جاء فى مؤاكلة الحائض وسؤرها/ ح: 133 قال: ”حسن غريب.“، سنن ابن ماجه/أبواب التيمم/. باب فى مؤاكلة الحائض/ ح: 651، (تحفة الأشراف: 5326)، أخرجه البيهقي: 312/1 من حديث أبى داود به (صحيح)»
وضاحت: عورت جب مخصوص ایام میں ہو تو زوجین کے لیے خاص جنسی عمل حرام ہے۔ تاہم اکٹھے کھا پی، اٹھ بیٹھ اور لیٹ سکتے ہیں۔ اسی کو آپ نے «ما فوق الإزار» ”تہہ بند سے اوپر“ سے تعبیر فرمایا ہے اور ظاہر ہے کہ اس سے مذی کا اخراج ہو گا تو غسل واجب نہ ہو گا۔ ہاں اگر منی نکل آئے تو غسل کرنا پڑے گا۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: مرد کے لیے اس کی حائضہ بیوی کی کیا چیز حلال ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لنگی (تہبند) کے اوپر کا حصہ جائز ہے، لیکن اس سے بھی بچنا افضل ہے۔“ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث قوی نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «أخرجه: الطبراني فى الكبير: 20/ 100، ح: 194 من طريق آخر عن عبدالرحمٰن ابن عائذ به وهو لم يدرك معاذ بن جبل كما فى جامع التحصيل للعلائي، ص: 223، تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف: 11332) (ضعیف)»
سعدالأغطش لین الحدیث اور بقیہ مدلس ہیں۔ وضاحت: عورت جب مخصوص ایام میں ہو تو (جماع کے بغیر) مباشرت جائز ہے جیسا کہ حدیث ۲۱۲ میں ذکر ہوا۔ مذکورہ حدیث ضعیف ہے، جیسا کہ حدیث میں بیان بھی ہوا کہ امام ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث قوی نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف
|