كِتَاب الطَّهَارَةِ کتاب: طہارت کے مسائل 130. باب فِي الْغُسْلِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ باب: جمعہ کے دن غسل کرنے کا بیان۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے کہ اسی دوران ایک آدمی ۱؎ داخل ہوا تو آپ نے کہا: کیا تم لوگ نماز (میں اول وقت آنے) سے رکے رہتے ہو؟ اس شخص نے کہا: جوں ہی میں نے اذان سنی ہے وضو کر کے آ گیا ہوں، اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اچھا صرف وضو ہی؟ کیا تم لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے نہیں سنا ہے: ”جب تم میں سے کوئی جمعہ کے لیے آئے تو چاہیئے کہ غسل کرے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجمعة 2 (878)، 5 (882)، صحیح مسلم/الجمعة 1 (845)، موطا امام مالک/النداء للصلاة 1(3)، (تحفة الأشراف: 10667)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الجمعة 3 (494)، سنن الدارمی/الصلاة 190 (1580) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس سے مراد عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ہیں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جمعہ کے دن کا غسل ہر بالغ (مسلمان) پر واجب ہے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 161 (858)، والجمعة 2 (879)، 12 (895)، والشہادات 18 (2665)، صحیح مسلم/الجمعة 1 (846)، سنن النسائی/الجمعة 8 (1378)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 80 (1089)، (تحفة الأشراف: 4161)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الجمعة 1(4)، مسند احمد (3/6)، سنن الدارمی/الصلاة 190 (1578) (صحیح)»
وضاحت: عورتیں بھی اس کی پابند ہیں۔ کسی بھی مسلمان بالغ مرد عورت کو بغیر معقول عذر کے اس بارے میں غفلت نہیں کرنی چاہیے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر بالغ پر جمعہ کی حاضری اور جمعہ کے لیے ہر آنے والے پر غسل ہے“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: جب آدمی طلوع فجر کے بعد غسل کر لے تو یہ غسل جمعہ کے لیے کافی ہے اگرچہ وہ جنبی رہا ہو۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الجمعة 2 (1372)، (تحفة الأشراف: 15806) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابو سعید خدری اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص جمعہ کے دن غسل کرے، اپنے کپڑوں میں سے اچھے کپڑے پہنے، اور اگر اس کے پاس ہو تو خوشبو لگائے، پھر جمعہ کے لیے آئے اور لوگوں کی گردنیں نہ پھاندے، پھر اللہ نے جو نماز اس کے لیے مقدر کر رکھی ہے پڑھے، پھر امام کے (خطبہ کے لیے) نکلنے سے لے کر نماز سے فارغ ہونے تک خاموش رہے، تو یہ ساری چیزیں اس کے ان گناہوں کا کفارہ ہوں گی جو اس جمعہ اور اس کے پہلے والے جمعہ کے درمیان اس سے سرزد ہوئے ہیں“، راوی کہتے ہیں: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اور مزید تین دن کے گناہوں کا بھی، اس لیے کہ ایک نیکی کا ثواب دس گنا ہوتا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: محمد بن سلمہ کی حدیث زیادہ کامل ہے اور حماد نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا کلام ذکر نہیں کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «وقد تفرد بہ أبو داود (تحفة الأشراف: 4430)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الجمعة 8 (858) من حديث أبي هريرة مختصرًا ومن غير هذا السند، وأدرج قوله: ’’وثلاثة أيام‘‘ في قوله صلی اللہ علیہ وسلم (حسن)»
قال الشيخ الألباني: حسن
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر بالغ پر جمعہ کے دن غسل کرنا، مسواک کرنا اور خوشبو لگانا جو اسے نصیب ہو لازم ہے“، مگر بکیر نے (عمرو بن سلیم اور ابو سعید خدری کے درمیان) عبدالرحمٰن بن ابی سعید کے واسطہ کا ذکر نہیں کیا ہے، اور خوشبو کے بارے میں انہوں نے کہا: اگرچہ عورت ہی کی خوشبو ہو۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجمعة 3 (880) (نحوہ)، صحیح مسلم/الجمعة 2 (846)، سنن النسائی/الجمعة 6 (1376)، (تحفة الأشراف: 4116، 4267)، وقد أخرجہ: (3/30، 65، 66، 69) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
اوس بن اوس ثقفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”جو شخص جمعہ کے دن نہلائے اور خود بھی نہائے ۱؎ پھر صبح سویرے اول وقت میں (مسجد) جائے، شروع سے خطبہ میں رہے، پیدل جائے، سوار نہ ہو اور امام سے قریب ہو کر غور سے خطبہ سنے، اور لغو بات نہ کہے تو اس کو ہر قدم پر ایک سال کے روزے اور شب بیداری کا ثواب ملے گا۔“
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الصلاة 239 (496)، سنن النسائی/الجمعة 10 (1382)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 80 (1087)، (تحفة الأشراف: 1735) وقد أخرجہ: مسند احمد (4/8، 9، 10)، سنن الدارمی/الصلاة 194 (1588) (صحیح) تفصیل کے لیے دیکھیں فتح المغيث للسخاوی 3/ 189۔ اور تحفة الأحوذي 5/3»
وضاحت: ۱؎: یعنی اپنی بیوی سے صحبت کی اور اس پر بھی غسل لازم کر دیا ہو۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
اس سند سے بھی اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے جمعہ کے دن اپنا سر دھویا اور غسل کیا“، پھر راوی نے اسی طرح کی حدیث بیان کی۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبله، (تحفة الأشراف: 1735) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص جمعہ کے دن غسل کرے، اپنی عورت کی خوشبو میں سے اگر اس کے پاس ہو لگائے، اپنے اچھے کپڑے زیب تن کرے، پھر لوگوں کی گردنیں نہ پھاندے اور خطبہ کے وقت بیکار کام نہ کرے، تو یہ اس جمعہ سے اس (یعنی پچھلے) جمعہ تک کے گناہوں کا کفارہ ہو گا، اور جو بلا ضرورت (بیہودہ) باتیں بکے، اور لوگوں کی گردنیں پھاندے، تو وہ جمعہ اس کے لیے ظہر ہو گا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف: 8659) (حسن)»
قال الشيخ الألباني: حسن
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چار چیزوں کی وجہ سے غسل کرتے تھے: (ا) جنابت کی وجہ سے، (۲) جمعہ کے دن (۳) پچھنے لگانے سے، (۴) اور میت کو نہلانے سے۔
تخریج الحدیث: «تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف: 16193)، ویأتی عند المؤلف فی الجنازة برقم (3160) (ضعیف)» (اس کے راوی ”مصعب بن شیبہ“ ضعیف ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
علی بن حوشب کہتے ہیں کہ میں نے مکحول سے اس قول «غسل واغتسل» کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: اس کا مطلب ہے کہ وہ اپنا سر اور بدن دھوئے۔
تخریج الحدیث: «تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف: 19471) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح مقطوع
سعید بن عبدالعزیز سے «غسل واغتسل» کے بارے میں مروی ہے، ابومسہر کہتے ہیں کہ سعید کا کہنا ہے کہ «غسل واغتسل» کے معنی ہیں: وہ اپنا سر اور اپنا بدن خوب دھلے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 18691) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح مقطوع
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے جمعہ کے دن غسل جنابت کی طرح غسل کیا پھر (پہلی گھڑی میں) جمعہ کے لیے (مسجد) گیا تو گویا اس نے ایک اونٹ اللہ کی راہ میں پیش کیا، جو دوسری گھڑی میں گیا گویا اس نے ایک گائے اللہ کی راہ میں پیش کی، اور جو تیسری گھڑی میں گیا گویا اس نے ایک سینگ دار مینڈھا اللہ کی راہ میں پیش کیا، جو چوتھی گھڑی میں گیا گویا اس نے ایک مرغی اللہ کی راہ میں پیش کی، اور جو پانچویں گھڑی میں گیا گویا اس نے ایک انڈا اللہ کی راہ میں پیش کیا، پھر جب امام (خطبہ کے لیے) نکل آتا ہے تو فرشتے بھی آ جاتے ہیں اور ذکر (خطبہ) سننے لگتے ہیں“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجمعة 4 (881)، وبدء الخلق 6 (3211)، صحیح مسلم/الجمعة 7 (850)، سنن الترمذی/الجمعة 6 (499)، سنن النسائی/1708، من الکبریٰ، (تحفة الأشراف: 12569)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/الإمامة 59 (865)، والجمعة 13 (1386)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 82 (1092)، موطا امام مالک/الجمعة 1(1)، مسند احمد (2/239، 259، 280، 505، 512)، سنن الدارمی/الصلاة 193 (1585) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
|