كِتَاب الطَّهَارَةِ کتاب: طہارت کے مسائل 42. باب الْوُضُوءِ بِالنَّبِيذِ باب: نبیذ سے وضو کرنے کا بیان۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنوں والی رات میں مجھ سے پوچھا: ”تمہاری چھاگل میں کیا ہے؟“، میں نے کہا: نبیذ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ پاک کھجور اور پاک پانی ہے“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الطھارة 65 (88)، سنن ابن ماجہ/الطھارة 37 (384)، (تحفة الأشراف: 9603)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/402) (ضعیف)» (اس کے ایک راوی ابو زید مجہول ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
علقمہ کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے پوچھا: «ليلة الجن» (جنوں والی رات) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ لوگوں میں سے کون تھا؟ انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم میں سے کوئی نہ تھا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصلاة 33 (450)، سنن الترمذی/تفسیرالقرآن 46 (3258)، (تحفة الأشراف: 9463)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/436) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جنوں کے پاس جانا چھ مرتبہ ثابت ہے، پہلی بار کا واقعہ مکہ میں پیش آیا اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نہیں تھے جیسا کہ مسلم اور ترمذی کے اندر سورہ احقاف کی تفسیر میں مذکور ہے، دوسری مرتبہ کا واقعہ مکہ ہی میں جبل حجون پر پیش آیا، تیسرا واقعہ اعلی مکہ میں پیش آیا، جب کہ چوتھا مدینہ میں بقیع غرقد کا ہے، ان تینوں راتوں میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، پانچواں واقعہ مدنی زندگی میں مدینہ سے باہر پیش آیا اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ تھے، چھٹا واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی سفر کا ہے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ بلال بن الحارث رضی اللہ عنہ تھے (ملاحظہ ہو: الکوکب الدری شرح الترمذی)۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عطاء سے روایت ہے کہ وہ دودھ اور نبیذ سے وضو کرنے کو مکروہ سمجھتے تھے اور کہتے تھے: اس سے تو مجھے تیمم ہی زیادہ پسند ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف: 19062) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوخلدہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوالعالیہ سے اس شخص کے متعلق پوچھا جسے جنابت لاحق ہوئی ہو اور اس کے پاس پانی نہ ہو، بلکہ نبیذ ہو تو کیا وہ اس سے غسل کر سکتا ہے؟ آپ نے کہا: نہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف: 18640) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
|