حدثنا علي بن ثابت , حدثني هشام بن سعد , عن حاتم بن ابي نصر , عن عبادة بن نسي , قال: كان رجل بالشام يقال له: معدان , كان ابو الدرداء يقرئه القرآن , ففقده ابو الدرداء , فلقيه يوما وهو بدابق , فقال له ابو الدرداء : يا معدان , ما فعل القرآن الذي كان معك؟ كيف انت والقرآن اليوم؟ قال: قد علم الله منه فاحسن , قال: يا معدان , افي مدينة تسكن اليوم او في قرية؟ قال: لا , بل في قرية قريبة من المدينة , قال: مهلا , ويحك يا معدان , فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول: " ما من خمسة اهل ابيات لا يؤذن فيهم بالصلاة , وتقام فيهم الصلوات , إلا استحوذ عليهم الشيطان , وإن الذئب ياخذ الشاذة" , فعليك بالمدائن , ويحك يا معدان" .حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ ثَابِتٍ , حَدَّثَنِي هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ , عَنْ حَاتِمِ بْنِ أَبِي نَصْرٍ , عَنْ عُبَادَةَ بْنِ نُسَيٍّ , قَالَ: كَانَ رَجُلٌ بِالشَّامِ يُقَالُ لَهُ: مَعْدَانُ , كَانَ أَبُو الدَّرْدَاءِ يُقْرِئُهُ الْقُرْآنَ , فَفَقَدَهُ أَبُو الدَّرْدَاءِ , فَلَقِيَهُ يَوْمًا وَهُوَ بِدَابِقٍ , فَقَالَ لَهُ أَبُو الدَّرْدَاءِ : يَا مَعْدَانُ , مَا فَعَلَ الْقُرْآنُ الَّذِي كَانَ مَعَكَ؟ كَيْفَ أَنْتَ وَالْقُرْآنُ الْيَوْمَ؟ قَالَ: قَدْ عَلِمَ اللَّهُ مِنْهُ فَأَحْسَنَ , قَالَ: يَا مَعْدَانُ , أَفِي مَدِينَةٍ تَسْكُنُ الْيَوْمَ أَوْ فِي قَرْيَةٍ؟ قَالَ: لَا , بَلْ فِي قَرْيَةٍ قَرِيبَةٍ مِنَ الْمَدِينَةِ , قَالَ: مَهْلًا , وَيْحَكَ يَا مَعْدَانُ , فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ: " مَا مِنْ خَمْسَةِ أَهْلِ أَبْيَاتٍ لَا يُؤَذَّنُ فِيهِمْ بِالصَّلَاةِ , وَتُقَامُ فِيهِمْ الصَّلَوَاتُ , إِلَّا اسْتَحْوَذَ عَلَيْهِمْ الشَّيْطَانُ , وَإِنَّ الذِّئْبَ يَأْخُذُ الشَّاذَّةَ" , فَعَلَيْكَ بِالْمَدَائِنِ , وَيْحَكَ يَا مَعْدَانُ" .
حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ معدان کو قرآن پڑھاتے تھے، کچھ عرصے تک وہ غائب رہا، ایک دن " دابق " میں وہ انہیں ملا تو انہوں نے پوچھا معدان! اس قرآن کا کیا بنا جو تمہارے پاس تھا؟ تم اور قرآن آج کیسے ہو؟ اس نے کہا اللہ جانتا ہے اور خوب اچھی طرح، انہوں نے معدان بن ابی طلحہ سے پوچھا کہ تمہاری رہائش کہاں ہے؟ میں نے بتایا کہ حمص سے پیچھے ایک بستی ہے انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس بستی میں تین آدمی ہوں اور وہاں اذان اور اقامت ِ نماز نہ ہوتی ہو تو ان پر شیطان غالب آجاتا ہے، لہذا تم جماعت ِ مسلمین کو اپنے اوپر لازم پکڑو کیونکہ اکیلی بکری کو بھڑیا کھا جاتا ہے، ارے معدان! مدائن شہر کو لازم پکڑو۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف لجهالة حاتم بن أبى نصر، ولضعف هشام بن سعد
معدان بن ابی طلحہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ نے مجھ سے پوچھا کہ تمہاری رہائش کہاں ہے؟ میں نے بتایا کہ حمص سے پیچھے ایک بستی ہے انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس بستی میں تین آدمی ہوں اور وہاں اذان اور اقامت ِ نماز نہ ہوتی ہو تو ان پر شیطان غالب آجاتا ہے، لہذا تم جماعت ِ مسلمین کو اپنے اوپر لازم پکڑو کیونکہ اکیلی بکری کو بھڑیا کھا جاتا ہے، ارے معدان! مدائن شہر کو لازم پکڑو۔
حدثنا محمد بن جعفر , حدثنا شعبة , عن الحكم قال: سمعت ابا عمر الصيني , عن ابي الدرداء , انه إذا كان نزل به ضيف , قال: يقول له ابو الدرداء: مقيم فنسرح, او ظاعن فنعلف؟ قال: فإن قال له , ظاعن , قال له , ما اجد لك شيئا خيرا من شيء امرنا به رسول الله صلى الله عليه وسلم , قلنا: يا رسول الله , ذهب الاغنياء بالاجر , يحجون ولا نحج , ويجاهدون ولا نجاهد , وكذا وكذا , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الا ادلكم على شيء إن اخذتم به , جئتم من افضل ما يجيء به احد منهم: ان تكبروا الله اربعا وثلاثين , وتسبحوه ثلاثا وثلاثين , وتحمدوه ثلاثا وثلاثين , في دبر كل صلاة" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ , حَدَّثَنَا شُعْبَةُ , عَنِ الْحَكَمِ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عُمَرَ الصِّينِيَّ , عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ , أَنَّهُ إِذَا كَانَ نَزَلَ بِهِ ضَيْفٌ , قَالَ: يَقُولُ لَهُ أَبُو الدَّرْدَاءِ: مُقِيمٌ فَنُسْرحُ, أَوْ ظَاعِنٌ فَنَعْلِفُ؟ قَالَ: فَإِنْ قَالَ لَهُ , ظَاعِنٌ , قَالَ لَهُ , مَا أَجِدُ لَكَ شَيْئًا خَيْرًا مِنْ شَيْءٍ أَمَرَنَا بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , ذَهَبَ الْأَغْنِيَاءُ بِالْأَجْرِ , يَحُجُّونَ وَلَا نَحُجُّ , وَيُجَاهِدُونَ وَلَا نُجَاهِدُ , وَكَذَا وَكَذَا , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَلَا أَدُلُّكُمْ عَلَى شَيْءٍ إِنْ أَخَذْتُمْ بِهِ , جِئْتُمْ مِنْ أَفْضَلِ مَا يَجِيءُ بِهِ أَحَدٌ مِنْهُمْ: أَنْ تُكَبِّرُوا اللَّهَ أَرْبَعًا وَثَلَاثِينَ , وَتُسَبِّحُوهُ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ , وَتَحْمَدُوهُ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ , فِي دُبُرِ كُلِّ صَلَاةٍ" .
حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی ان کے پاس آیا، انہوں نے پوچھا کہ تم مقیم ہو کہ ہم تمہارے ساتھ اچھا سلوک کریں یا مسافر ہو کہ تمہیں زاد راہ دیں؟ اس نے کہا مسافر ہوں، انہوں نے فرمایا تمہیں ایک ایسی چیز زاد راہ کے طور پر دیتا ہوں جس سے افضل اگر کوئی چیز مجھے ملتی تمہیں وہی دیتا، ایک مرتبہ میں نبی کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ! مالدار دنیا اور آخرت دونوں لے گئے، ہم بھی نماز پڑھتے ہیں اور وہ بھی پڑھتے ہیں، ہم بھی روزے رکھتے ہیں وہ بھی رکھتے ہیں البتہ وہ صدقہ کرتے ہیں اور ہم صدقہ نہیں کرسکتے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں ایک ایسی چیز نہ بتادوں کہ اگر تم اس پر عمل کرلو تو تم سے پہلے والا کوئی تم سے آگے نہ بڑھ سکے اور پیچھے والا تمہیں نہ پا سکے، الاً یہ کہ کوئی آدمی تمہاری ہی طرح عمل کرنے لگے، ہر نماز کے بعد ٣٣ مرتبہ سبحان اللہ، ٣٣ مرتبہ الحمد اللہ اور ٣٤ مرتبہ اللہ اکبر کہہ لیا کرو۔
حكم دارالسلام: صحيح بطرقه وشواهده، وهذا إسناد ضعيف لجهالة حال أبى عمر الصيني
حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص سورت کہف کی آخری دس آیات یاد کرلے وہ دجال کے فتنے سے مخفوظ رہے گا۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 809، لكن شذ فيه شعبة، فقال: "من أواخر سورة الكهف"
حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا قیامت کے دن میزان عمل میں سب سے افضل اور بھاری چیز اخلاق ہوں گے۔ گذشہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حدثنا محمد بن جعفر , حدثنا شعبة , عن يزيد بن خمير , قال: سمعت عبد الرحمن بن جبير بن نفير , يحدث , عن ابيه , عن ابي الدرداء , عن النبي صلى الله عليه وسلم , انه مر بامراة مجح على باب فسطاط , فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" لعله يريد ان يلم بها؟" , فقالوا: نعم , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لقد هممت ان العنه لعنا يدخل معه قبره , كيف يورثه وهو لا يحل له؟ كيف يستخدمه وهو لا يحل له؟" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ , حَدَّثَنَا شُعْبَةُ , عَنْ يَزِيدَ بْنِ خُمَيْرٍ , قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ , يُحَدِّثُ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , أَنَّهُ مَرَّ بِامْرَأَةٍ مُجِحٍّ عَلَى بَابِ فُسْطَاطٍ , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَعَلَّهُ يُرِيدُ أَنْ يُلِمَّ بِهَا؟" , فَقَالُوا: نَعَمْ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ أَلْعَنَهُ لَعْنًا يَدْخُلُ مَعَهُ قَبْرَهُ , كَيْفَ يُوَرِّثُهُ وَهُوَ لَا يَحِلُّ لَهُ؟ كَيْفَ يَسْتَخْدِمُهُ وَهُوَ لَا يَحِلُّ لَهُ؟" .
حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خیمے کے باہر ایک عورت کو دیکھا جس کے یہاں بچے کی پیدائش کا زمانہ قریب آچکا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لگتا ہے کہ اس کا مالک اس کے " قریب " جانا چاہتا ہے؟ لوگوں نے عرض کیا جی ہاں! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرا دل چاہتا ہے کہ اس پر ایسی لعنت کروں جو اس کے ساتھ اس کی قبر تک جائے، یہ اسے کیسے اپنا وارث بنا سکتا ہے جب کہ یہ اس کے لئے حلال ہی نہیں اور کیسے اس سے خدمت لے سکتا ہے جبکہ یہ اس کے لئے حلال ہی نہیں۔
حدثنا محمد بن جعفر , حدثنا شعبة , عن سليمان , عن ذكوان , عن عطاء بن يسار , عن شيخ , عن ابي الدرداء : انه سال رسول الله صلى الله عليه وسلم عن هذه الآية: الذين آمنوا وكانوا يتقون لهم البشرى في الحياة الدنيا سورة يونس آية 63 - 64 , قال: " الرؤيا الصالحة يراها المسلم , او ترى له" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ , حَدَّثَنَا شُعْبَةُ , عَنْ سُلَيْمَانَ , عَنْ ذَكْوَانَ , عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ , عَنْ شَيْخٍ , عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ : أَنَّهُ سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ هَذِهِ الْآيَةِ: الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا سورة يونس آية 63 - 64 , قَالَ: " الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ يَرَاهَا الْمُسْلِمُ , أَوْ تُرَى لَهُ" .
حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت قرآنی لھم البشری فی الحیاۃ الدنیا میں بشری کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس سے مراد اچھے خواب ہیں جو کوئی مسلمان دیکھے یا اس کے حق میں کوئی دوسرا دیکھے۔ گذشہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لإبهام الراوي عن أبى الدرداء
حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ تم ایک رات میں تہائی قرآن پڑھنے سے عاجز ہو؟ صحابہ کرام یہ بات بہت مشکل معلوم ہوئی اور وہ کہنے لگے کہ اس کی طاقت کس کے پاس ہوگی؟ ہم بہت کمزور اور عاجز ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے تین حصے کئے ہیں اور سورت اخلاص کو ان میں سے ایک جزو قرار دیا ہے۔ گذشہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حدثنا حجاج بن محمد , حدثنا ابو معشر , عن موسى بن عقبة , عن زياد بن ابي زياد مولى ابن عياش , عن ابي الدرداء , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الا اخبركم بخير اعمالكم , وازكاها عند مليككم , وارفعها لدرجاتكم , وخير لكم من إعطاء الذهب والورق , وخير لكم من ان تلقوا عدوكم فتضربوا رقابهم ويضربون رقابكم؟ ذكر الله عز وجل" .حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ , حَدَّثَنَا أَبُو مَعْشَرٍ , عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ , عَنْ زِيَادِ بْنِ أَبِي زِيَادٍ مَوْلَى ابْنِ عَيَّاشٍ , عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِخَيْرِ أَعْمَالِكُمْ , وَأَزْكَاهَا عِنْدَ مَلِيكِكُمْ , وَأَرْفَعِهَا لِدَرَجَاتِكُمْ , وَخَيْرٍ لَكُمْ مِنْ إِعْطَاءِ الذَّهَبِ وَالْوَرِقِ , وَخَيْرٍ لَكُمْ مِنْ أَنْ تَلْقَوْا عَدُوَّكُمْ فَتَضْرِبُوا رِقَابَهُمْ وَيَضْرِبُونَ رِقَابَكُمْ؟ ذِكْرُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ" .
حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کیا میں تمہیں تمہارے مالک کی نگاہوں میں سب سے بہتر عمل " جو درجات میں سب سے زیادہ بلندی کا سبب ہو، تمہارے لئے سونا چاندی خرچ کرنے سے بہتر ہو اور اس سے بہتر ہو کہ مید ان جنگ میں دشمن سے آمنا سامنا ہو اور تم ان کی گردنیں اڑاؤ اور وہ تمہاری گردنیں اڑائیں " نہ بتادوں؟ صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ! وہ کون سا عمل ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کا ذکر۔
حكم دارالسلام: هذا اسناد فيه ضعف وانقطاع، وقد سلف باسناد صحيح، انظر: 21702
حدثنا ابو معاوية , قال: حدثنا الاعمش , عن ابي صالح , عن عطاء بن يسار , عن رجل من اهل مصر , عن ابي الدرداء , قال: اتاه رجل , فقال: ما تقول في قول الله لهم البشرى في الحياة الدنيا وفي الآخرة سورة يونس آية 64 , قال: لقد سالت عن شيء ما سمعت احدا سال عنه بعد رجل سال عنه رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال: " بشراهم في الحياة الدنيا الرؤيا الصالحة , يراها المسلم , او ترى له , وبشراهم في الآخرة الجنة" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ , قَالَ: حدثَنَا الْأَعْمَشُ , عَنْ أَبِي صَالِحٍ , عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ , عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ مِصْرَ , عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ , قَالَ: أَتَاهُ رَجُلٌ , فَقَالَ: مَا تَقُولُ فِي قَوْلِ اللَّهِ لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الآخِرَةِ سورة يونس آية 64 , قَالَ: لَقَدْ سَأَلْتَ عَنْ شَيْءٍ مَا سَمِعْتُ أَحَدًا سَأَلَ عَنْهُ بَعْدَ رَجُلٍ سَأَلَ عَنْهُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: " بُشْرَاهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ , يَرَاهَا الْمُسْلِمُ , أَوْ تُرَى لَهُ , وَبُشْرَاهُمْ فِي الْآخِرَةِ الْجَنَّةُ" .
حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت قرآنی لھم البشری فی الحیاۃ الدنیا میں بشری کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس سے مراد اچھے خواب ہیں جو کوئی مسلمان دیکھے یا اس کے حق میں کوئی دوسرا دیکھے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لإبهام الراوي عن أبى الدرداء
حدثنا ابن نمير , حدثنا الاعمش , عن ابي صالح , عن ابي الدرداء , مثل حديث زيد بن وهب , عن ابي ذر , عن النبي صلى الله عليه وسلم , انه قال: " من مات من امتي لا يشرك بالله شيئا , دخل الجنة" , إلا ان فيه:" وإن رغم انف ابي الدرداء".حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ , حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ , عَنْ أَبِي صَالِحٍ , عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ , مِثْلَ حَدِيثِ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ , عَنْ أَبِي ذَرٍّ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , أَنَّهُ قَالَ: " مَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِي لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا , دَخَلَ الْجَنَّةَ" , إِلَّا أَنَّ فِيهِ:" وَإِنْ رَغِمَ أَنْفُ أَبِي الدَّرْدَاءِ".
حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت میں سے جو شخص اس طرح مرے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو، وہ جنت میں داخل ہوگا، یہ حدیث حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے البتہ اس میں یہ ہے کہ اگرچہ ابودردا کی ناک خاک آلود ہوجائے۔
حكم دارالسلام: صحيح من حديث أبى ذر ، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه بين أبى صالح وأبي الدرداء
حدثنا عبد الرزاق , حدثنا معمر , عن زيد بن اسلم , قال: كان عبد الملك بن مروان يرسل إلى ام الدرداء , فتبيت عند نسائه , ويسالها عن النبي صلى الله عليه وسلم , قال: فقام ليلة فدعا خادمه , فابطات عليه , فلعنها , فقالت: لا تلعن , فإن ابا الدرداء حدثني , انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول: " إن اللعانين لا يكونون يوم القيامة شهداء ولا شفعاء" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ , عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ , قَالَ: كَانَ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ مَرْوَانَ يُرْسِلُ إِلَى أُمِّ الدَّرْدَاءِ , فَتَبِيتُ عِنْدَ نِسَائِهِ , وَيَسْأَلُهَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: فَقَامَ لَيْلَةً فَدَعَا خَادِمَهُ , فَأَبْطَأَتْ عَلَيْهِ , فَلَعَنَهَا , فَقَالَتْ: لَا تَلْعَنْ , فَإِنَّ أَبَا الدَّرْدَاءِ حَدَّثَنِي , أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ: " إِنَّ اللَّعَّانِينَ لَا يَكُونُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ شُهَدَاءَ وَلَا شُفَعَاءَ" .
زید بن اسلم کہتے ہیں کہ مروان کا بیٹا عبدالمالک حضرت ام دردا کو اپنے یہاں بلا لیتا تھا، وہ اس کی عورتوں کے یہاں رات گذارتی تھیں اور وہ ان سے نبی کے متعلق پوچھتا رہتا تھا ایک رات وہ بیدار ہوا تو خادمہ کو آواز دی، اس نے آنے میں تاخیر کردی تو وہ سے لعنت ملامت کرنے لگا، حضرت ام دردا نے فرمایا لعنت مت کرو کیونکہ ابودردا نے مجھے بتایا ہے کہ انہوں نے نبی کو کہ یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ لعنت ملامت کرنے والے قیامت کے دن گواہ بن سکیں گے اور نہ ہی سفارش کرنے والے۔
حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے نبی سے پوچھا یا رسول اللہ! کیا ہر نماز میں قرأت ہوتی ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! تو ایک انصار نے کہا کہ یہ تو واجب ہوگئی پھر حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ میری طرف متوجہ ہوئے کیونکہ میں ہی سب سے زیادہ ان کے قریب تھا اور فرمایا بھتیجے! میں سمجھتا ہوں کہ جب امام لوگوں کی امامت کرتا ہے تو وہ ان کی طرف سے کفایت کرتا ہے۔
عطاء بن یسار کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت معاویہ نے چاندی کا ایک پیالہ اس کی قیمت سے کم و بیش میں خریدا تو حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بیع سے منع فرمایا ہے الاً یہ کہ برابر سرابر ہو۔
حكم دارالسلام: صحيح من حديث عبادة بن الصامت، وهذا إسناد منقطع، عطاء لم يسمع من أبى الدرداء
حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص مرتے وقت کسی غلام کو آزاد کرتا یا صدقہ خیرات کرتا ہے اس کی مثال اسی شخص کی سی ہے جو خوب سیراب ہونے کے بعد بچ جانے والی چیز کو ہدیہ کردے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة أبى حبيبة الطائي
حدثنا وكيع , حدثنا يونس بن ابي إسحاق , عن ابي السفر , قال: كسر رجل من قريش سن رجل من الانصار , فاستعدى عليه معاوية , فقال القرشي: إن هذا دق سني , قال معاوية: كلا , إنا سنرضيه , قال: فلما الح عليه الانصاري , قال معاوية: شانك بصاحبك , وابو الدرداء جالس , فقال ابو الدرداء : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول: " ما من مسلم يصاب بشيء في جسده , فيتصدق به , إلا رفعه الله به درجة , وحط عنه بها خطيئة" , قال: فقال الانصاري: اانت سمعت هذا من رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: نعم , سمعته اذناي , ووعاه قلبي , يعني: فعفا عنه .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ , حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ , عَنْ أَبِي السَّفَرِ , قَالَ: كَسَرَ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ سِنَّ رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ , فَاسْتَعْدَى عَلَيْهِ مُعَاوِيَةَ , فَقَالَ الْقُرَشِيُّ: إِنَّ هَذَا دَقَّ سِنِّي , قَالَ مُعَاوِيَةُ: كَلَّا , إِنَّا سَنُرْضِيهِ , قَالَ: فَلَمَّا أَلَحَّ عَلَيْهِ الْأَنْصَارِيُّ , قَالَ مُعَاوِيَةُ: شَأْنَكَ بِصَاحِبِكَ , وَأَبُو الدَّرْدَاءِ جَالِسٌ , فَقَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ: " مَا مِنْ مُسْلِمٍ يُصَابُ بِشَيْءٍ فِي جَسَدِهِ , فَيَتَصَدَّقُ بِهِ , إِلَّا رَفَعَهُ اللَّهُ بِهِ دَرَجَةً , وَحَطَّ عَنْهُ بِهَا خَطِيئَةً" , قَالَ: فَقَالَ الْأَنْصَارِيُّ: أَأَنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: نَعَمْ , سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ , وَوَعَاهُ قَلْبِي , يَعْنِي: فَعَفَا عَنْهُ .
ابو سفر کہتے ہیں کہ قریش کے ایک آدمی نے انصار کے ایک آدمی کا دانت توڑ ڈالا اس نے حضرت معاویہ سے قصاص کی درخواست کی وہ قریشی کہنے لگا کہ اس نے میرا دانت توڑا تھا حضرت معاویہ نے فرمایا ہرگز نہیں ہم اسے راضی کریں گے جب اس انصار نے بڑے اصرار سے اپنی بات دہرائی تو حضرت معاویہ نے فرمایا تم اپنے ساتھی سے اپنا بدلہ لے لو، اس مجلس میں حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ بھی بیٹھے ہوئے تھے، انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جس مسلمان کو اس کے جسم میں کوئی تکلیف پہنچتی ہے اور وہ اس پر صدقہ کی نیت کرلیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کا ایک درجہ بلند کردیتا ہے اور اس کا ایک گناہ معاف فرما دیتا ہے، اس انصار نے پوچھا کہ کیا آپ نے خود نبی سے یہ حدیث سنی ہے؟ انہوں نے فرمایا ہاں! میرے کانوں نے اس حدیث کو سنا ہے اور میرے دل نے اسے مخفوظ کیا ہے، چنانچہ اس نے اس قریشی کو معاف کردیا۔
حكم دارالسلام: المرفوع منه صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، أبو السفر لم يسمع من أبى الدرداء
حدثنا إسماعيل , حدثنا داود , وابن ابي عدي , عن داود , عن الشعبي , عن علقمة , قال: لقيت ابا الدرداء , قال ابن ابي عدي في حديثه: فقدمت الشام , فلقيت ابا الدرداء , قال: ممن انت؟ قلت: من اهل الكوفة , قال: هل تقرا علي قراءة ابن مسعود؟ قلت: نعم , قال: فاقرا: والليل إذا يغشى , قلت: " والليل إذا يغشى , والنهار إذا تجلى , والذكر والانثى" , قال: هكذا سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقرؤها , قال: احسبه قال: فضحك.حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ , حَدَّثَنَا دَاوُدُ , وَابْنُ أَبِي عَدِيٍّ , عَنْ دَاوُدَ , عَنِ الشَّعْبِيِّ , عَنْ عَلْقَمَةَ , قَالَ: لَقِيتُ أَبَا الدَّرْدَاءِ , قَالَ ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ فِي حَدِيثِهِ: فَقَدِمْتُ الشَّامَ , فَلَقِيتُ أَبَا الدَّرْدَاءِ , قَالَ: مِمَّنْ أَنْتَ؟ قُلْتُ: مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ , قَالَ: هَلْ تَقْرَأُ عَلَيَّ قِرَاءَةَ ابْنِ مَسْعُودٍ؟ قُلْتُ: نَعَمْ , قَالَ: فَاقْرَأْ: وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى , قُلْتُ: " وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى , وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّى , وَالذَّكَرِ وَالْأُنْثَى" , قَالَ: هَكَذَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَؤُهَا , قَالَ: أَحْسَبُهُ قَالَ: فَضَحِكَ.
علقمہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں شام پہنچا اور وہاں حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی، انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ تمہارا تعلق کہاں سے ہے؟ میں نے بتایا کہ میں اہل کوفہ میں سے ہوں، انہوں نے فرمایا کیا تم حضرت ابن مسعود کی قرأت کے مطابق قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہو؟ میں نے عرض کیا جی ہاں! انہوں نے فرمایا سورت اللیل کی تلاوت سناؤ، میں نے یوں تلاوت کی انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی کی اس طرح اس کی تلاوت کرتے ہوئے سنا ہے، غالباً وہ اس پر ہنسے بھی تھے۔
حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی عزت کا دفاع کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ اس سے قیامت کے دن جہنم کی آگ کو دور کرے۔
حكم دارالسلام: حسن بطرقه وشواهده، وهذا إسناد ضعيف لضعف ليث وشهر بن حوشب
حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کو قئی آئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا روزہ ختم کردیا، پھر ان کے پاس پانی لایا گیا تو انہوں کے وضو کرلیا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد أخطأ فيه معمر
حدثنا يزيد بن هارون , اخبرنا شعبة , عن مغيرة , عن إبراهيم , عن علقمة , انه قدم الشام , فدخل مسجد دمشق , فصلى فيه ركعتين , وقال: اللهم ارزقني جليسا صالحا , قال: فجاء , فجلس إلى ابي الدرداء , فقال له ابو الدرداء : ممن انت؟ قال: من اهل الكوفة , قال: كيف سمعت ابن ام عبد يقرا: والليل إذا يغشى , والنهار إذا تجلى سورة الليل آية 1 - 2 , قال علقمة: " والذكر والانثى" , فقال ابو الدرداء: لقد سمعتها من رسول الله صلى الله عليه وسلم , فما زال هؤلاء حتى شككوني , ثم قال: الم يكن فيكم صاحب الوساد , وصاحب السر الذي لا يعلمه احد غيره , والذي اجير من الشيطان على لسان النبي صلى الله عليه وسلم؟! صاحب الوساد: ابن مسعود , وصاحب السر: حذيفة , والذي اجير من الشيطان: عمار .حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ , أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ , عَنْ مُغِيرَةَ , عَنْ إِبْرَاهِيمَ , عَنْ عَلْقَمَةَ , أَنَّهُ قَدِمَ الشَّامَ , فَدَخَلَ مَسْجِدَ دِمَشْقَ , فَصَلَّى فِيهِ رَكْعَتَيْنِ , وَقَالَ: اللَّهُمَّ ارْزُقْنِي جَلِيسًا صَالِحًا , قَالَ: فَجَاءَ , فَجَلَسَ إِلَى أَبِي الدَّرْدَاءِ , فَقَالَ لَهُ أَبُو الدَّرْدَاءِ : مِمَّنْ أَنْتَ؟ قَالَ: مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ , قَالَ: كَيْفَ سَمِعْتَ ابْنَ أُمِّ عَبْدٍ يَقْرَأُ: وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى , وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّى سورة الليل آية 1 - 2 , قَالَ عَلْقَمَةُ: " وَالذَّكَرِ وَالْأُنْثَى" , فَقَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ: لَقَدْ سَمِعْتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَمَا زَالَ هَؤُلَاءِ حَتَّى شَكَّكُونِي , ثُمَّ قَالَ: أَلَمْ يَكُنْ فِيكُمْ صَاحِبُ الْوِسَادِ , وَصَاحِبُ السِّرِّ الَّذِي لَا يَعْلَمُهُ أَحَدٌ غَيْرُهُ , وَالَّذِي أُجِيرَ مِنَ الشَّيْطَانِ عَلَى لِسَانِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟! صَاحِبُ الْوِسَادِ: ابْنُ مَسْعُودٍ , وَصَاحِبُ السِّرِّ: حُذَيْفَةُ , وَالَّذِي أُجِيرَ مِنَ الشَّيْطَانِ: عَمَّارٌ .
علقمہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں شام دمشق کی جامع میں دو رکعتیں پڑھ کر اچھے ہم نشین کی دعاء کی تو وہاں حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی، انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ تمہارا تعلق کہاں سے ہے؟ میں نے بتایا کہ میں اہل کوفہ میں سے ہوں انہوں نے فرمایا کیا تم حضرت ابن مسعود کی قرأت کے مطابق قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہو؟ میں نے عرض کیا جی ہاں! انہوں نے فرمایا سورت اللیل کی تلاوت سناؤ، میں نے یوں تلاوت کی انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی کی اس طرح اس کی تلاوت کرتے ہوئے سنا ہے، ان لوگوں نے مجھ سے اس پر اتنی بحث کی تھی کہ مجھے شک میں مبتلا کردیا تھا، پھر فرمایا کیا تم میں " تکیے والے " ایسے رازوں کو جاننے والے جنہیں کوئی نہ جانتا ہو اور جنہیں نبی کی زبانی شیطان سے مخفوظ قرار دیا گیا تھا " نہیں ہیں؟ تکیے والے تو ابن مسعود ہیں، رازوں کو جاننے والے حذیفہ ہیں اور شیطان سے محفوظ عمار ہیں۔
گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔ حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جو شخص سورت کہف کی ابتدائی دس آیات یاد کرلے، وہ دجال کے فتنے سے محفوظ رہے گا۔
حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی عزت کا دفاع کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ اس سے قیامت کے دن جہنم کی آگ کو دور کرے۔ علقمہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں شام پہنچا۔۔۔۔ پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی۔
حدثنا حدثنا ابو العلاء الحسن بن سوار , حدثنا ليث , عن معاوية , عن ابي حلبس يزيد بن ميسرة , قال: سمعت ام الدرداء , تقول: سمعت ابا الدرداء , يقول: سمعت ابا القاسم صلى الله عليه وسلم , يقول: ما سمعته يكنيه قبلها ولا بعدها , يقول: " إن الله عز وجل يقول: يا عيسى , إني باعث من بعدك امة , إن اصابهم ما يحبون , حمدوا الله وشكروا , وإن اصابهم ما يكرهون , احتسبوا وصبروا , ولا حلم ولا علم , قال: يا رب كيف هذا لهم , ولا حلم ولا علم؟ قال: اعطيهم من حلمي وعلمي" .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو الْعَلَاءِ الْحَسَنُ بْنُ سَوَّارٍ , حَدَّثَنَا لَيْثٌ , عَنْ مُعَاوِيَةَ , عَنْ أَبِي حَلْبَسٍ يَزِيدَ بْنِ مَيْسَرَةَ , قَالَ: سَمِعْتُ أُمَّ الدَّرْدَاءِ , تَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا الدَّرْدَاءِ , يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ: مَا سَمِعْتُهُ يُكَنِّيهِ قَبْلَهَا وَلَا بَعْدَهَا , يَقُولُ: " إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ: يَا عِيسَى , إِنِّي بَاعِثٌ مِنْ بَعْدِكَ أُمَّةً , إِنْ أَصَابَهُمْ مَا يُحِبُّونَ , حَمِدُوا اللَّهَ وَشَكَرُوا , وَإِنْ أَصَابَهُمْ مَا يَكْرَهُونَ , احْتَسَبُوا وَصَبَرُوا , وَلَا حِلْمَ وَلَا عِلْمَ , قَالَ: يَا رَبِّ كَيْفَ هَذَا لَهُمْ , وَلَا حِلْمَ وَلَا عِلْمَ؟ قَالَ: أُعْطِيهِمْ مِنْ حِلْمِي وَعِلْمِي" .
حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے " بقول راوی میں نے انہیں اس سے قبل یا بعد میں نبی کی کنیت ذکر کرتے ہوئے نہیں سنا " کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے عیسیٰ! میں تمہارے بعد ایک امت بھیجنے والا ہوں، انہیں اگر کوئی خوشی نصیب ہوگی تو وہ حمد و شکر بجا لائیں گے اور اگر کوئی ناپسندیدہ صورت پیش آئے گی تو وہ اس پر صبر کریں گے اور ثواب کی نیت کریں گے اور کوئی حلم و علم نہ ہوگا، انہوں نے عرض کیا پروردگار! یہ کیسے ہوگا جبکہ ان کے پاس کوئی حلم و علم نہ ہوگا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں انہیں اپنا حلم و علم عطاء کروں گا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة حال أبى حلبس يزيد بن ميسرة
حدثنا احمد بن عبد الملك , حدثني سهل بن ابي صدقة , قال: حدثني كثير ابو الفضل الطفاوي , حدثني يوسف بن عبد الله بن سلام , قال: اتيت ابا الدرداء في مرضه الذي قبض فيه , فقال لي: يا ابن اخي , ما اعمدك إلى هذا البلد , او ما جاء بك؟ قال: قلت: لا , إلا صلة ما كان بينك وبين والدي عبد الله بن سلام , فقال ابو الدرداء : بئس ساعة الكذب هذه , سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول: " من توضا , فاحسن وضوءه , ثم قام , فصلى ركعتين , او اربعا شك سهل , يحسن فيهما الذكر والخشوع , ثم استغفر الله عز وجل , غفر له" , قال عبد الله: وحدثناه سعيد بن ابي الربيع السمان , قال: حدثنا صدقة بن ابي سهل الهنائي , قال عبد الله: واحمد بن عبد الملك وهم في اسم الشيخ , فقال: سهل بن ابي صدقة , وإنما هو صدقة بن ابي سهل الهنائي.حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ , حَدَّثَنِي سَهْلُ بْنُ أَبِي صَدَقَةَ , قَالَ: حَدَّثَنِي كَثِيرُ أَبُو الْفَضْلِ الطُّفَاوِيُّ , حَدَّثَنِي يُوسُفُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ , قَالَ: أَتَيْتُ أَبَا الدَّرْدَاءِ فِي مَرَضِهِ الَّذِي قُبِضَ فِيهِ , فَقَالَ لِي: يَا ابْنَ أَخِي , مَا أَعْمَدَكَ إِلَى هَذَا الْبَلَدِ , أَوْ مَا جَاءَ بِكَ؟ قَالَ: قُلْتُ: لَا , إِلَّا صِلَةُ مَا كَانَ بَيْنَكَ وَبَيْنَ وَالِدِي عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ , فَقَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ : بِئْسَ سَاعَةُ الْكَذِبِ هَذِهِ , سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ: " مَنْ تَوَضَّأَ , فَأَحْسَنَ وُضُوءَهُ , ثُمَّ قَامَ , فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ , أَوْ أَرْبَعًا شَكَّ سَهْلٌ , يُحْسِنُ فِيهِمَا الذِّكْرَ وَالْخُشُوعَ , ثُمَّ اسْتَغْفَرَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ , غَفَرَ لَهُ" , قَالَ عَبْد اللَّهِ: وحَدَّثَنَاه سَعِيدُ بْنُ أَبِي الرَّبِيعِ السَّمَّانُ , قَالَ: حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ أَبِي سَهْلٍ الْهُنَائِيُّ , قَالَ عَبْد اللَّهِ: وَأَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ وَهِمَ فِي اسْمِ الشَّيْخِ , فَقَالَ: سَهْلُ بْنُ أَبِي صَدَقَةَ , وَإِنَّمَا هُوَ صَدَقَةُ بْنُ أَبِي سَهْلٍ الْهُنَائِيُّ.
حضرت یوسف بن عبداللہ بن سلام سے مروی ہے کہ مجھے حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ کی رفاقت کا شرف حاصل ہوا ہے جب ان کی دنیا سے رخصتی کا وقت قریب آیا تو انہوں نے فرمایا بھتیجے! کیسے آنا ہوا؟ میں نے عرض کیا محض آپ کے اور میرے والد عبداللہ بن سلام کی دوستی کی وجہ سے، انہوں نے فرمایا زندگی کے اس لمحے میں جھوٹ بولنا بہت بری بات ہوگی، میں نے نبی کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص وضو کرے اور خوب اچھی طرح کرے، پھر دو رکعتیں مکمل خشوع کے ساتھ پڑھے پھر اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگے تو اللہ اسے ضرور بخش دے گا۔
حكم دارالسلام: إسناده حسن على وهم فى تسمية أحذ رواته ، فقد وهم أحمد بن عبدالملك ، فسمي صدقة بن أبى سهل: سهل ابن أبى صدقة، كما نبه عليه الإمام عبدالله بن الإمام أحمد عقب هذا الحديث
حدثنا عفان , حدثنا همام , قال: حدثنا عاصم بن بهدلة , عن ابي صالح , عن معاذ بن جبل , انه إذ حضر , قال: ادخلوا علي الناس , فادخلوا عليه , فقال: إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول: " من مات لا يشرك بالله شيئا , جعله الله في الجنة" , وما كنت احدثكموه إلا عند الموت , والشهيد على ذلك عويمر ابو الدرداء , فاتوا ابا الدرداء , فقال: صدق اخي , وما كان يحدثكم به إلا عند موته .حَدَّثَنَا عَفَّانُ , حَدَّثَنَا هَمَّامٌ , قَالَ: حدثَنَا عَاصِمُ بْنُ بَهْدَلَةَ , عَنْ أَبِي صَالِحٍ , عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ , أَنَّهُ إِذْ حُضِرَ , قَالَ: أَدْخِلُوا عَلَيَّ النَّاسَ , فَأُدْخِلُوا عَلَيْهِ , فَقَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ: " مَنْ مَاتَ لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا , جَعَلَهُ اللَّهُ فِي الْجَنَّةِ" , وَمَا كُنْتُ أُحَدِّثُكُمُوهُ إِلَّا عِنْدَ الْمَوْتِ , وَالشَّهِيدُ عَلَى ذَلِكَ عُوَيْمِرٌ أَبُو الدَّرْدَاءِ , فَأَتَوْا أَبَا الدَّرْدَاءِ , فَقَالَ: صَدَقَ أَخِي , وَمَا كَانَ يُحَدِّثُكُمْ بِهِ إِلَّا عِنْدَ مَوْتِهِ .
حضرت معاذ بن جبل کے حوالے سے مروی ہے کہ جب ان کا آخری وقت قریب آیا تو فرمایا لوگوں کو میرے پاس بلا کر لاؤ، لوگ آئے تو فرمایا کہ میں نے نبی کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جو شخص اس حال میں مرے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو، اللہ اسے جنت میں داخل فرمائے گا، میں تمہیں یہ بات اپنی موت کے وقت بتارہا ہوں اور اس کے گواہ عویمر حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے تو انہوں نے فرمایا میرے بھائی نے سچ کہا اور انہوں نے یہ حدیث تم سے اپنی موت کے وقت ہی بیان کرنا تھی۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، أبو صالح لم يسمع من معاذ بن جبل، ولا من أبى الدرداء
حدثنا محمد بن جعفر , حدثنا شعبة , عن مغيرة , انه سمع إبراهيم , يحدث , قال: اتى علقمة الشام فصلى ركعتين , فقال: اللهم وفق لي جليسا صالحا , قال: فجلست إلى رجل , فإذا هو ابو الدرداء , فقال: ممن انت؟ فقلت: من اهل الكوفة , فقال: هل تدري كيف كان عبد الله يقرا هذا الحرف والليل إذا يغشى والنهار إذا تجلى وما خلق الذكر والانثى سورة الليل آية 1 - 3 , فقلت: كان يقرؤها: " والليل إذا يغشى , والنهار إذا تجلى , والذكر والانثى" , فقال: هكذا سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقرؤها , فما زال بي هؤلاء حتى كادوا يشككوني , ثم قال: اليس فيكم صاحب الوساد والسواك؟ يعني: عبد الله ابن مسعود , اليس فيكم الذي اجاره الله على لسان نبيه من الشيطان؟ يعني: عمار بن ياسر , اليس فيكم الذي يعلم السر ولا يعلمه غيره؟ يعني: حذيفة .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ , حَدَّثَنَا شُعْبَةُ , عَنْ مُغِيرَةَ , أَنَّهُ سَمِعَ إِبْرَاهِيمَ , يُحَدِّثُ , قالَ: أَتَى عَلْقَمَةُ الشَّامَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ , فَقَالَ: اللَّهُمَّ وَفِّقْ لِي جَلِيسًا صَالِحًا , قَالَ: فَجَلَسْتُ إِلَى رَجُلٍ , فَإِذَا هُوَ أَبُو الدَّرْدَاءِ , فَقَالَ: مِمَّنْ أَنْتَ؟ فَقُلْتُ: مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ , فَقَالَ: هَلْ تَدْرِي كَيْفَ كَانَ عَبْدُ اللَّهِ يَقْرَأُ هَذَا الْحَرْفَ وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّى وَمَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَالأُنْثَى سورة الليل آية 1 - 3 , فَقُلْتُ: كَانَ يَقْرَؤُهَا: " وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى , وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّى , وَالذَّكَرِ وَالْأُنْثَى" , فَقَالَ: هَكَذَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَؤُهَا , فَمَا زَالَ بِي هَؤُلَاءِ حَتَّى كَادُوا يُشَكِّكُونِي , ثُمَّ قَالَ: أَلَيْسَ فِيكُمْ صَاحِبُ الْوِسَادِ وَالسِّوَاكِ؟ يَعْنِي: عَبْدَ اللَّهِ ابْنَ مَسْعُودٍ , أَلَيْسَ فِيكُمْ الَّذِي أَجَارَهُ اللَّهُ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِ مِنَ الشَّيْطَان؟ يَعْنِي: عَمَّارَ بْنَ يَاسِرٍ , أَلَيْسَ فِيكُمْ الَّذِي يَعْلَمُ السِّرَّ وَلَا يَعْلَمُهُ غَيْرُهُ؟ يَعْنِي: حُذَيْفَةَ .
علقمہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں شام میں دمشق کی جامع مسجد میں دو رکعتیں پڑھ کر اچھے ہم نشین کی دعاء کی تو وہاں حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی، انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ تمہارا تعلق کہاں سے ہے؟ میں نے بتایا کہ میں اہل کوفہ میں سے ہوں، انہوں نے فرمایا کیا تم حضرت ابن مسعود کی قرأت کے مطابق قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہو؟ میں نے عرض کیا جی ہاں! انہوں نے فرمایا سورت اللیل کی تلاوت سناؤ، میں نے یوں تلاوت کی انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی کو اس طرح اس کی تلاوت کرتے ہوئے سنا ہے، ان لوگوں نے مجھ سے اس پر اتنی بحث کی تھی کہ مجھے شک میں مبتلا کردیا تھا، پھر فرمایا کیا تم میں " تکیے والے " ایسے رازوں کو جاننے والے جنہیں کوئی نہ جانتا ہو اور جنہیں نبی کی زبانی شیطان سے محفوظ قرار دیا گیا تھا " نہیں ہیں؟ تکیے والے تو ابن مسعود ہیں، رازوں کو جاننے والے حذیفہ ہیں اور شیطان سے محفوظ عمار ہیں۔
حضرت نعیم سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے ابن آدم! تو دن کے پہلے چار حصے میں چار رکعتیں پڑھنے سے اپنے آپ کو عاجز ظاہر نہ کرو، میں دن کے آخری حصے تک تیری کفایت کروں گا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه ، شريح بن عبيد لم يسمع من أبى الدرداء
حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مجھے میرے خلیل ابوقاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین چیزوں کی وصیت فرمائی ہے جنہیں میں کبھی نہیں چھوڑوں گا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ہر تین مہینے روزے رکھنے کی، وتر پڑھ کر سونے کی اور سفر وحضر میں چاشت کے نوافل پڑھنے کی وصیت فرمائی ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، دون قوله: "فى الحضر والسفر"، م: 722، وهذا إسناد ضعيف لابهام الراوي عن أبى إدريس السكوني، ولجهالة أبى إدريس
حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ باپ جنت کا درمیانہ دروازہ ہے، اب تمہاری مرضی ہے کہ اس کی حفاظت کرو یا اسے چھوڑ دو۔
حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جسے نرمی کا حصہ مل گیا، اسے خیر کا حصہ مل گیا اور قیامت کے دن میزان عمل میں اچھے اخلاق سے بھاری کوئی چیز نہ ہوگی۔
حكم دارالسلام: بعضه صحيح، وبعضه صحيح لغيره، وهذا اسناد ضعيف لجهالة يعلي بن مملك
حدثنا ابو معاوية , حدثنا الاعمش , عن إبراهيم , عن علقمة , قال: قدمنا إلى الشام , فاتانا ابو الدرداء , فقال: افيكم احد يقرا علي قراءة عبد الله ؟ فاشاروا إلي , قال: قلت: نعم انا , فقال: كيف سمعت عبد الله يقرا هذه الآية والليل إذا يغشى , والنهار إذا تجلى سورة الليل آية 1 - 2؟ قال: قلت: سمعته يقرا: " والليل إذا يغشى , والنهار إذا تجلى , والذكر والانثى" , قال: وانا والله هكذا سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقرؤها , وهؤلاء يريدون ان اقرا: وما خلق , فلا اتابعهم .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ , حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ , عَنْ إِبْرَاهِيمَ , عَنْ عَلْقَمَةَ , قَالَ: قَدِمْنَا إِلَى الشَّامِ , فَأَتَانَا أَبُو الدَّرْدَاءِ , فَقَالَ: أَفِيكُمْ أَحَدٌ يَقْرَأُ عَلَيَّ قِرَاءَةَ عَبْدِ اللَّهِ ؟ فَأَشَارُوا إِلَيَّ , قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ أَنَا , فَقَالَ: كَيْفَ سَمِعْتَ عَبْدَ اللَّهِ يَقْرَأُ هَذِهِ الْآيَةَ وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى , وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّى سورة الليل آية 1 - 2؟ قَالَ: قُلْتُ: سَمِعْتُهُ يَقْرَأُ: " وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى , وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّى , وَالذَّكَرِ وَالْأُنْثَى" , قَالَ: وَأَنَا وَاللَّهِ هَكَذَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَؤُهَا , وَهَؤُلَاءِ يُرِيدُونَ أَنْ أَقْرَأَ: وَمَا خَلَقَ , فَلَا أُتَابِعُهُمْ .
علقمہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے شام دمشق کی جامع مسجد میں دو رکعتیں پڑھ کر اچھے ہم نشین کی دعاء کی تو وہاں حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی، انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ تمہارا تعلق کہاں سے ہے؟ میں نے بتایا کہ میں اہل کوفہ میں سے ہوں انہوں نے فرمایا کیا تم حضرت ابن مسعود کی قرأت کے مطابق قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہو؟ میں نے عرض کیا جی ہاں! انہوں نے فرمایا سورت اللیل کی تلاوت سناؤ، میں نے یوں تلاوت کی انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی کی اس طرح اس کی تلاوت کرتے ہوئے سنا ہے یہ لوگ چاہتے ہیں کہ میں وما خلق بھی پڑھوں لیکن میں ان کی بات نہیں مانوں گا۔
حدثنا ابو معاوية , حدثنا الاعمش , عن ابي صالح , عن عطاء بن يسار , عن رجل من اهل مصر , عن ابي الدرداء , قال: سئل عن هذه الآية لهم البشرى في الحياة الدنيا وفي الآخرة سورة يونس آية 64 , فقال: لقد سالت عن شيء ما سمعت احدا سال بعد رجل سال عنه رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقال: " هي الرؤيا الصالحة , يراها الرجل المسلم , او ترى له بشراه في الحياة الدنيا , وبشراه في الآخرة الجنة" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ , حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ , عَنْ أَبِي صَالِحٍ , عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ , عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ مِصْرَ , عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ , قَالَ: سُئِلَ عَنْ هَذِهِ الْآيَةِ لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الآخِرَةِ سورة يونس آية 64 , فَقَالَ: لَقَدْ سَأَلْتَ عَنْ شَيْءٍ مَا سَمِعْتُ أَحَدًا سَأَلَ بَعْدَ رَجُلٍ سَأَلَ عَنْهُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ: " هِيَ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ , يَرَاهَا الرَّجُلُ الْمُسْلِمُ , أَوْ تُرَى لَهُ بُشْرَاهُ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا , وَبُشْرَاهُ فِي الْآخِرَةِ الْجَنَّةُ" .
حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت قرآنی لھم البشری فی الحیاۃ الدنیا میں بشری کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس سے مراد اچھے خواب ہیں جو کوئی مسلمان دیکھے یا اس کے حق میں کوئی دوسرا دیکھے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لإبهام الراوي عن أبى الدرداء
حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت قرآنی لھم البشری فی الحیاۃ الدنیا میں بشری کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس سے مراد اچھے خواب ہیں جو کوئی مسلمان دیکھے یا اس کے حق میں کوئی دوسرا دیکھے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف الإبهام الراوي عن أبى الدرداء