حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص روزانہ صبح کے وقت اللہ کی رضا کے لئے ایک ہزار نیکیاں نہ چھوڑا کرے، سو مرتبہ «سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ» کہہ لیا کرے، اس کا ثواب ایک ہزار نیکیوں کے برابر ہے اور وہ شخص ان شاء اللہ اس دن اتنے گناہ نہیں کر سکے گا اور اس کے علاوہ جو نیکی کے کام کرے گا وہ اس سے زیادہ ہوں گے۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف أبى بكر بن عبدالله
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص مسلمانوں کے راستے سے کسی تکلیف دہ چیز کو ہٹاتا ہے تو اللہ اس کے لئے ایک نیکی لکھتا ہے اور جس کے لئے اللہ کے یہاں ایک نیکی لکھی جائے، اللہ اسے جنت میں داخل فرمائے گا۔“
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف أبى بكر بن أبى مريم
حدثنا حدثنا ابو المغيرة , قال: حدثنا صفوان , قال: حدثني شريح بن عبيد الحضرمي , وغيره , عن ابي الدرداء , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال: " إن الله تعالى يقول: يا ابن آدم , لا تعجزن من الاربع ركعات من اول نهارك , اكفك آخره" .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ , قَالَ: حَدَّثَنَا صَفْوَانُ , قَالَ: حَدَّثَنِي شُرَيْحُ بْنُ عُبَيْدٍ الْحَضْرَمِيُّ , وَغَيْرُهُ , عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَقُولُ: يَا ابْنَ آدَمَ , لَا تَعْجَزَنَّ مِنَ الْأَرْبَعِ رَكَعَاتٍ مِنْ أَوَّلِ نَهَارِكَ , أَكْفِكَ آخِرَهُ" .
حضرت نعیم سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے ابن آدم! تو دن کے پہلے چار حصے میں چار رکعتیں پڑھنے سے اپنے آپ کو عاجز ظاہر نہ کرو، میں دن کے آخری حصے تک تیری کفایت کروں گا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، شريح بن عبيد لم يسمع من أبى الدرداء
حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مجھے میرے خلیل ابوقاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین چیزوں کی وصیت فرمائی ہے جنہیں میں کبھی نہیں چھوڑوں گا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ہر تین مہینے روزے رکھنے کی، وتر پڑھ کر سونے کی اور سفر وحضر میں چاشت کے نوافل پڑھنے کی وصیت فرمائی ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، دون قوله: "فى الحضر والسفر"، م: 723. وهذا اسناد ضعيف لابهام الراوي عن ابي ادريس، ولجهالة ابي ادريس
حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنت میں والدین کا کوئی نافرمان، جادو پر ایمان رکھنے والا، عادی شراب خور اور تقدیر کو جھٹلانے والا داخل نہ ہوگا۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره دون قوله: "ولا مكذب بقدر"، فقد تفرد بها سليمان بن عتبة، وهو ممن لا يحتمل تفرده، وقد اختلف فيه على يونس بن ميسر
حدثنا يعقوب , قال: حدثني ابي , عن ابيه , قال: حدثني اخ لعدي بن ارطاة , عن رجل , عن ابي الدرداء , قال: عهد إلينا رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ان اخوف ما اخاف عليكم الائمة المضلون" .حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ , قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي , عَنْ أَبِيهِ , قَالَ: حَدَّثَنِي أَخٌ لِعَدِيِّ بْنِ أَرْطَاةَ , عَنْ رَجُلٍ , عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ , قَالَ: عَهِدَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ الْأَئِمَّةُ الْمُضِلُّونَ" .
حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ مجھے تمہارے متعلق سب سے زیادہ اندیشہ گمراہ کن حکمرانوں سے ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لإبهام الراوي عن أبى الدرداء
حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر تمہارے وہ گناہ معاف ہوجائیں جو تم جانوروں پر کرتے ہو تو بہت سے گناہ معاف ہوجائیں گے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، تفرد به سليمان بن عتبة، وهو ممن لا يحتمل تفرده، وقد اختلف فيه على الهيثم بن خارجة
حدثنا هيثم , وسمعته انا من هيثم , قال: اخبرنا ابو الربيع , عن يونس , عن ابي إدريس , عن ابي الدرداء , قالوا: يا رسول الله , ارايت ما نعمل , امر قد فرغ منه , ام امر نستانفه؟ قال:" بل امر قد فرغ منه" , قالوا: فكيف بالعمل يا رسول الله؟ قال: " كل امرئ مهيا لما خلق له" .حَدَّثَنَا هَيْثَمٌ , وَسَمِعْتُهُ أَنَا مِنْ هَيْثَمٍ , قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو الرَّبِيعِ , عَنْ يُونُسَ , عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ , عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ , قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَرَأَيْتَ مَا نَعْمَلُ , أَمْرٌ قَدْ فُرِغَ مِنْهُ , أَمْ أَمْرٌ نَسْتَأْنِفُهُ؟ قَالَ:" بَلْ أَمْرٌ قَدْ فُرِغَ مِنْهُ" , قَالُوا: فَكَيْفَ بِالْعَمَلِ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: " كُلُّ امْرِئٍ مُهَيَّأٌ لِمَا خُلِقَ لَهُ" .
حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک صحابہ نے نبی سے پوچایا رسول اللہ! یہ بتائیے کہ ہم جو اعمال کرتے ہیں کیا انہیں لکھ کر فراغت ہوگئی ہے یا ہمارا عمل پہلے ہوتا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انہیں لکھ کر فراغت ہوچکی ہے، انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! پھر عمل کا کیا فائدہ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر انسان کے لئے وہی کام آسان کئے جاتے ہیں جن کے لئے اسے پیدا کیا گیا ہے۔
حدثنا هيثم وسمعته انا منه , قال: حدثنا ابو الربيع , عن يونس , عن ابي إدريس , عن ابي الدرداء , عن النبي صلى الله عليه وسلم , قال: " خلق الله آدم حين خلقه , فضرب كتفه اليمنى , فاخرج ذرية بيضاء , كانهم الذر , وضرب كتفه اليسرى , فاخرج ذرية سوداء كانهم الحمم , فقال للذي في يمينه: إلى الجنة ولا ابالي , وقال للذي في كفه اليسرى: إلى النار ولا ابالي" .حَدَّثَنَا هَيْثَمٌ وَسَمِعْتُهُ أَنَا مِنْهُ , قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الرَّبِيعِ , عَنْ يُونُسَ , عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ , عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: " خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ حِينَ خَلَقَهُ , فَضَرَبَ كَتِفَهُ الْيُمْنَى , فَأَخْرَجَ ذُرِّيَّةً بَيْضَاءَ , كَأَنَّهُمْ الذَّرُّ , وَضَرَبَ كَتِفَهُ الْيُسْرَى , فَأَخْرَجَ ذُرِّيَّةً سَوْدَاءَ كَأَنَّهُمْ الْحُمَمُ , فَقَالَ لِلَّذِي فِي يَمِينِهِ: إِلَى الْجَنَّةِ وَلَا أُبَالِي , وَقَالَ لِلَّذِي فِي كَفِّهِ الْيُسْرَى: إِلَى النَّارِ وَلَا أُبَالِي" .
حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ نے جب حضرت آدم کو پیدا کیا تو ان کے دائیں کندھے پر ہاتھ مار کر ایک روشن مخلوق چونٹیوں کی طرح باہر نکالی، پھر بائیں کندھے پر ہاتھ مار کر کوئلے کی طرح سیاہ ایک اور مخلوق نکالی اور دائیں ہاتھ والوں کے لئے فرمایا کہ یہ جنت کے لئے ہیں اور مجھے کوئی پرواہ نہیں ہے اور بائیں ہاتھ والوں کے لئے فرمایا کہ یہ جہنم کے لئے ہیں اور مجھے کوئی پرواہ نہیں ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، تفرد به أبو الربيع، وهو ممن لا يحتمل تفرده، ومعناه ثابت من احاديث اخري
حدثنا حدثنا هيثم , قال: اخبرنا ابو الربيع , عن يونس , عن ابي إدريس , عن ابي الدرداء , عن النبي صلى الله عليه وسلم , قال: " إن الله تعالى يقول يوم القيامة لآدم عليه السلام: قم فجهز من ذريتك تسع مائة وتسعة وتسعين إلى النار , وواحدا إلى الجنة" , فبكى اصحابه وبكوا , ثم قال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ارفعوا رءوسكم فوالذي نفسي بيده , ما امتي في الامم إلا كالشعرة البيضاء في جلد الثور الاسود" , فخفف ذلك عنهم .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا هَيْثَمٌ , قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو الرَّبِيعِ , عَنْ يُونُسَ , عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ , عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَقُولُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لِآدَمَ عَلَيْهِ السَّلَام: قُمْ فَجَهِّزْ مِنْ ذُرِّيَّتِكَ تِسْعَ مِائَةٍ وَتِسْعَةً وَتِسْعِينَ إِلَى النَّارِ , وَوَاحِدًا إِلَى الْجَنَّةِ" , فَبَكَى أَصْحَابُهُ وَبَكَوْا , ثُمَّ قَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ارْفَعُوا رُءُوسَكُمْ فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ , مَا أُمَّتِي فِي الْأُمَمِ إِلَّا كَالشَّعْرَةِ الْبَيْضَاءِ فِي جِلْدِ الثَّوْرِ الْأَسْوَدِ" , فَخَفَّفَ ذَلِكَ عَنْهُمْ .
حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ حضرت آدم سے فرمائے گا کہ اٹھو اور اپنی اولاد میں سے نو سو ننانوے افراد جہنم کے لئے اور ایک آدمی جنت کے لئے تیار کرو، یہ سن کر صحابہ کرام رونے لگے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا سر اٹھاؤ، اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے، دوسری امتوں کے مقابلے میری امت کے لوگ سیاہ بیل کی کھال پر سفید بال کی طرح ہوں گے، تب جا کر صحابہ کا بوجھ ہلکا ہوا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وإسناده ضعيف بهذه السياقة، تفرده به أبو الربيع، وهو من لا يحتمل تفرده
حدثنا هيثم , قال: حدثنا ابو الربيع , عن يونس , عن ابي إدريس , عن ابي الدرداء , عن النبي صلى الله عليه وسلم , قال: " لكل شيء حقيقة , وما بلغ عبد حقيقة الإيمان حتى يعلم ان ما اصابه لم يكن ليخطئه , وما اخطاه لم يكن ليصيبه" , قال ابو عبد الرحمن: حدثني الهيثم بن خارجة , عن ابي الربيع , بهذه الاحاديث كلها , إلا انه اوقف منها حديث:" لو غفر لكم ما تاتون إلى البهائم" , وقد حدثناه ابي عنه مرفوعا.حَدَّثَنَا هَيْثَمٌ , قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الرَّبِيعِ , عَنْ يُونُسَ , عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ , عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: " لِكُلِّ شَيْءٍ حَقِيقَةٌ , وَمَا بَلَغَ عَبْدٌ حَقِيقَةَ الْإِيمَانِ حَتَّى يَعْلَمَ أَنَّ مَا أَصَابَهُ لَمْ يَكُنْ لِيُخْطِئَهُ , وَمَا أَخْطَأَهُ لَمْ يَكُنْ لِيُصِيبَهُ" , قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: حَدَّثَنِي الْهَيْثَمُ بْنُ خَارِجَةَ , عَنْ أَبِي الرَّبِيعِ , بِهَذِهِ الْأَحَادِيثِ كُلِّهَا , إِلَّا أَنَّهُ أَوْقَفَ مِنْهَا حَدِيثَ:" لَوْ غُفِرَ لَكُمْ مَا تَأْتُونَ إِلَى الْبَهَائِمِ" , وَقَدْ حَدَّثَنَاهُ أَبِي عَنْهُ مَرْفُوعًا.
حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر چیز کی ایک حقیقت ہوتی ہے اور کوئی شخص اس وقت تک ایمان کی حقیقت کو نہیں پہنچ سکتا جب تک اسے یہ یقین نہ ہوجائے کہ اسے جو تکلیف پہنچی ہے، وہ اس سے خطا نہیں جا ہوسکتی تھی اور جو چیز خطا ہوگئی ہے وہ اسے پہنچ نہیں سکتی تھی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، تفرد به أبو الربيع، وهو ممن لا يحتمل تفرده
حدثنا حسن , قال: حدثنا ابن لهيعة , عن واهب بن عبد الله , ان ابا الدرداء , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من قال لا إله إلا الله , وحده لا شريك له , دخل الجنة" , قال: قلت: وإن زنى , وإن سرق؟! قال:" وإن زنى , وإن سرق" , قلت: وإن زنى , وإن سرق؟! قال:" وإن زنى , وإن سرق" , قلت: وإن زنى , وإن سرق؟! قال:" وإن زنى , وإن سرق , على رغم انف ابي الدرداء" , قال: فخرجت لانادي بها في الناس , قال: فلقيني عمر , فقال: ارجع , فإن الناس إن علموا بهذه , اتكلوا عليها , فرجعت , فاخبرته صلى الله عليه وسلم , فقال صلى الله عليه وسلم:" صدق عمر" .حَدَّثَنَا حَسَنٌ , قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ , عَنْ وَاهبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ , أَنَّ أَبَا الدَّرْدَاءِ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ , وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ , دَخَلَ الْجَنَّةَ" , قَالَ: قُلْتُ: وَإِنْ زَنَى , وَإِنْ سَرَقَ؟! قَالَ:" وَإِنْ زَنَى , وَإِنْ سَرَقَ" , قُلْتُ: وَإِنْ زَنَى , وَإِنْ سَرَقَ؟! قَالَ:" وَإِنْ زَنَى , وَإِنْ سَرَقَ" , قُلْتُ: وَإِنْ زَنَى , وَإِنْ سَرَقَ؟! قَالَ:" وَإِنْ زَنَى , وَإِنْ سَرَقَ , عَلَى رَغْمِ أَنْفِ أَبِي الدَّرْدَاءِ" , قَالَ: فَخَرَجْتُ لِأُنَادِيَ بِهَا فِي النَّاسِ , قَالَ: فَلَقِيَنِي عُمَرُ , فَقَالَ: ارْجِعْ , فَإِنَّ النَّاسَ إِنْ عَلِمُوا بِهَذِهِ , اتَّكَلُوا عَلَيْهَا , فَرَجَعْتُ , فَأَخْبَرْتُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" صَدَقَ عُمَر" .
حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو بندہ بھی لا الہ الا اللہ کا اقرار کرے اور اسی اقرار پر دنیا سے رخصت ہو تو وہ جنت میں داخل ہوگا، میں نے پوچھا اگرچہ وہ بدکاری اور چوری کرتا پھرے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! اگرچہ وہ بدکاری اور چوری ہی کرے، یہ سوال جواب تین مرتبہ ہوئے، چوتھی مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! اگرچہ ابودردا کی ناک خاک آلود ہوجائے، حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں لوگوں میں اس کی منادی کرنے کے لئے نکلا تو راستے میں حضرت عمر مل گئے، انہوں نے فرمایا واپس چلے جاؤ، اگر لوگوں کو یہ بات پتہ چل گئی تو وہ اسی پر بھروسہ کرکے بیٹھ جائیں گے، چنانچہ میں نے واپس آکر نبی کو اس کی اطلاع دی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عمر سچ کہتے ہیں۔
حكم دارالسلام: صحيح لكن من حديث أبى ذر، دون القصة من عمر، وهذا إسناد ضعيف لضعف ابن لهيعة، ولانقطاعه بين واهب و أبى الدرداء
حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص جان بوجھ کر نماز عصر کو ترک کرتا ہے اس کے سارے اعمال ضائع ہوجاتے ہیں۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف عباد بن راشد، ولانقطاعه، وأبو قلابة لم يسمع من أبى الدرداء
حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آسمان کے سایہ تلے اور روئے زمین پر ابوذر رضی اللہ عنہ زیادہ سچا آدمی کوئی نہیں۔
حكم دارالسلام: حسن بطرقه وشواهده، وهذا إسناد ضعيف لضعف على بن زيد
حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ تم ایک رات میں تہائی قرآن پڑھنے سے عاجز ہو؟ صحابہ کرام یہ بات بہت مشکل معلوم ہوئی اور وہ کہنے لگے کہ اس کی طاقت کس کے پاس ہوگی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سورت اخلاص پڑھ لیا کرو (کہ وہ ایک تہائی قرآن کے برابر ہے)۔
حدثنا محمد بن بكر , قال: حدثنا ميمون يعني ابا محمد المرئي التميمي , قال: حدثنا يحيى بن ابي كثير , عن يوسف بن عبد الله بن سلام , قال: صحبت ابا الدرداء , اتعلم منه , فلما حضره الموت قال: آذن الناس بموتي , فآذنت الناس بموته , فجئت وقد ملئ الدار وما سواه , قال: فقلت: قد آذنت الناس بموتك , وقد ملئ الدار وما سواه , قال: اخرجوني , فاخرجناه , قال: اجلسوني , قال: فاجلسناه , قال: يا ايها الناس , إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول: " من توضا , فاسبغ الوضوء , ثم صلى ركعتين يتمهما , اعطاه الله ما سال معجلا او مؤخرا" , قال ابو الدرداء: يا ايها الناس , إياكم والالتفات , فإنه لا صلاة للملتفت , فإن غلبتم في التطوع , فلا تغلبن في الفريضة .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا مَيْمُونٌ يَعْنِي أَبَا مُحَمَّدٍ الْمَرَئِيَّ التَّمِيمِيَّ , قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ , عَنْ يُوسُفَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ , قَالَ: صَحِبْتُ أَبَا الدَّرْدَاءِ , أَتَعَلَّمُ مِنْهُ , فَلَمَّا حَضَرَهُ الْمَوْتُ قَالَ: آذِنْ النَّاسَ بِمَوْتِي , فَآذَنْتُ النَّاسَ بِمَوْتِهِ , فَجِئْتُ وَقَدْ مُلِئَ الدَّارُ وَمَا سِوَاهُ , قَالَ: فَقُلْتُ: قَدْ آذَنْتُ النَّاسَ بِمَوْتِكَ , وَقَدْ مُلِئَ الدَّارُ وَمَا سِوَاهُ , قَالَ: أَخْرِجُونِي , فَأَخْرَجْنَاهُ , قَالَ: أَجْلِسُونِي , قَالَ: فَأَجْلَسْنَاهُ , قَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ , إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ: " مَنْ تَوَضَّأَ , فَأَسْبَغَ الْوُضُوءَ , ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ يُتِمُّهُمَا , أَعْطَاهُ اللَّهُ مَا سَأَلَ مُعَجِّلًا أَوْ مُؤَخِّرًا" , قَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ , إِيَّاكُمْ وَالِالْتِفَاتَ , فَإِنَّهُ لَا صَلَاةَ لِلْمُلْتَفِتِ , فَإِنْ غُلِبْتُمْ فِي التَّطَوُّعِ , فَلَا تُغْلَبُنَّ فِي الْفَرِيضَةِ .
حضرت یوسف بن عبداللہ بن سلام سے مروی ہے کہ مجھے حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ کی رفاقت کا شرف حاصل ہوا ہے، میں ان سے علم حاصل کرتا تھا، جب ان کی دنیا سے رخصتی کا وقت قریب آیا تو انہوں نے فرمایا لوگوں کو میرے وقت آخر کی اطلاع دے دو، چنانچہ میں یہ لوگوں کو بتانے کے لئے نکلا، جب واپس آیا تو سارا گھر بھر چکا تھا اور باہر بھی لوگ کھڑے تھے، میں نے عرض کیا کہ میں نے لوگوں کو اطلاع دے دی ہے اور اب گھر کے اندر باہر لوگ بھرے ہوئے ہیں انہوں نے فرمایا لوگو! میں نے نبی کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص وضو کرے اور خوب اچھی طرح کرے، پھر دو رکعتیں مکمل خشوع کے ساتھ پڑھے تو اللہ سے اس کی مانگی ہوئی چیزیں ضرور دیتا ہے خواہ جلدی ہو یا تاخیر سے، انہوں نے مزید فرمایا لوگو! نماز میں دائیں بائیں دیکھنے سے بچو، کیونکہ ایسے شخص کی کوئی نماز نہیں ہوتی، اگر نوافل میں ایسا ہو تو فرائض میں اس سے مغلوب نہ ہونا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف من أجل ميمون أبى محمد، ومحمد ابن بكر البرساني
حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ تم ایک رات میں تہائی قرآن پڑھنے سے عاجز ہو؟ صحابہ کرام پر بات بہت مشکل معلوم ہوئی اور وہ کہنے لگے کہ اس کی طاقت کس کے پاس ہوگی؟ ہم بہت کمزور اور عاجز ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے تین حصے کئے ہیں اور سورت اخلاص کو ان میں سے ایک جزو قرار دیا ہے۔
حدثنا وهب بن جرير , قال: حدثنا ابي , قال: سمعت يونس , يحدث , عن الزهري , ان ابا الدرداء , قال: بينما نحن عند رسول الله صلى الله عليه وسلم نتذاكر ما يكون , إذ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا سمعتم بجبل زال عن مكانه , فصدقوا , وإذا سمعتم برجل تغير عن خلقه , فلا تصدقوا به , وإنه يصير إلى ما جبل عليه" .حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي , قَالَ: سَمِعْتُ يُونُسَ , يُحَدِّثُ , عَنِ الزُّهْرِيِّ , أَنَّ أَبَا الدَّرْدَاءِ , قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَتَذَاكَرُ مَا يَكُونُ , إِذْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا سَمِعْتُمْ بِجَبَلٍ زَالَ عَنْ مَكَانِهِ , فَصَدِّقُوا , وَإِذَا سَمِعْتُمْ بِرَجُلٍ تَغَيَّرَ عَنْ خُلُقِهِ , فَلَا تُصَدِّقُوا بِهِ , وَإِنَّهُ يَصِيرُ إِلَى مَا جُبِلَ عَلَيْهِ" .
حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پاس بیٹھے آئندہ پیش آنے والے حالات پر مذاکرہ کر رہے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم یہ بات سنو کہ ایک پہاڑ اپنی جگہ سے ہل گیا ہے تو اس کی تصدیق کرسکتے ہو لیکن اگر یہ بات سنو کہ کسی آدمی کے اخلاق بدل گئے ہیں تو اس کی تصدیق نہ کرنا کیونکہ وہ پھر اپنی فطرات کی طرف لوٹ جائے گا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، الزهري لم يدرك أبا الدرداء
حضرت ام دردا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے تو نہایت غصے کی حالت میں تھے، انہوں نے وجہ پوچھی تو فرمانے لگے کہ واللہ! میں لوگو میں نبی کی کوئی تعلیم نہیں دیکھ رہا، اب تو صرف اتنی بات رہ گئی ہے کہ وہ اکٹھے ہو کر نماز پڑھ لیتے ہیں۔
حضرت ام دردا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے تو نہایت غصے کی حالت میں تھے، انہوں نے وجہ پوچھی تو فرمانے لگے کہ واللہ! میں لوگو میں نبی کی کوئی تعلیم نہیں دیکھ رہا، اب تو صرف اتنی بات رہ گئی ہے کہ وہ اکٹھے ہو کر نماز پڑھ لیتے ہیں۔
حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کو قئی آئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا روزہ ختم کردیا۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر میں نبی کے آزاد غلام حضرت ثوبان سے دمشق کی مسجد میں ملا اور ان سے عرض کیا کہ حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ نے مجھے بتایا ہے کہ نبی کو قئی آئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا روزہ ختم کردیا، انہوں نے فرمایا کہ حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ نے سچ فرمایا ہے، نبی کے لئے پانی میں نے ہی انڈیلا تھا۔
حدثنا ابو سعيد , قال: اخبرنا ابو يعقوب يعني إسحاق بن عثمان الكلابي , قال: سمعت خالد بن دريك , يحدث , عن ابي الدرداء , يرفع الحديث إلى النبي صلى الله عليه وسلم , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا يجمع الله في جوف رجل غبارا في سبيل الله , ودخان جهنم , ومن اغبرت قدماه في سبيل الله , حرم الله سائر جسده على النار , ومن صام يوما في سبيل الله , باعد الله عنه النار مسيرة الف سنة للراكب المستعجل , ومن جرح جراحة في سبيل الله , ختم له بخاتم الشهداء , له نور يوم القيامة , لونها مثل لون الزعفران , وريحها مثل ريح المسك , يعرفه بها الاولون والآخرون , يقولون: فلان عليه طابع الشهداء , ومن قاتل في سبيل الله فواق ناقة , وجبت له الجنة" .حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ , قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو يَعْقُوبَ يَعْنِي إِسْحَاقَ بْنَ عُثْمَانَ الْكِلَابِيَّ , قَالَ: سَمِعْتُ خَالِدَ بْنَ دُرَيْكٍ , يُحَدِّثُ , عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ , يَرْفَعُ الْحَدِيثَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَجْمَعُ اللَّهُ فِي جَوْفِ رَجُلٍ غُبَارًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ , وَدُخَانَ جَهَنَّمَ , وَمَنْ اغْبَرَّتْ قَدَمَاهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ , حَرَّمَ اللَّهُ سَائِرَ جَسَدِهِ عَلَى النَّارِ , وَمَنْ صَامَ يَوْمًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ , بَاعَدَ اللَّهُ عَنْهُ النَّارَ مَسِيرَةَ أَلْفِ سَنَةٍ لِلرَّاكِبِ الْمُسْتَعْجِلِ , وَمَنْ جُرِحَ جِرَاحَةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ , خَتَمَ لَهُ بِخَاتَمِ الشُّهَدَاءِ , لَهُ نُورٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ , لَوْنُهَا مِثْلُ لَوْنِ الزَّعْفَرَانِ , وَرِيحُهَا مِثْلُ رِيحِ الْمِسْكِ , يَعْرِفُهُ بِهَا الْأَوَّلُونَ وَالْآخِرُونَ , يَقُولُونَ: فُلَانٌ عَلَيْهِ طَابَعُ الشُّهَدَاءِ , وَمَنْ قَاتَلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فُوَاقَ نَاقَةٍ , وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ" .
حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ ایک آدمی کے پیٹ میں جہاد فی سبیل اللہ کا غبار اور جہنم کا دھواں جمع نہیں فرمائے گا، جس شخص کے قدم راہ اللہ میں غبار آلود ہوجائیں، اللہ اس کے سارے جسم کو آگ پر حرام قرار دے دے گا، جو شخص راہ اللہ میں ایک دن کا روزہ رکھ لے، اللہ اس سے جہنم کو ایک ہزار سال کے فاصلے پر دور کردیتا ہے جو ایک تیز رفتار سوار طے کرسکے، جس شخص کو راہ اللہ میں کوئی زخم لگ جائے یا تکلیف پہنچ جائے تو قیامت کے دن اس سے بھی زیادہ رستا ہوا آئے گا لیکن اس دن اس کا رنگ زعفران جیسا اور مہک مشک جیسی ہوگی اور جس شخص کو راہ اللہ میں کوئی زخم لگ جائے تو اس پر شہدا کی مہر لگ جاتی ہے، اولین و آخرین اسے اس کے ذریعے پہچان کر کہیں گے کہ فلاں آدمی پر شہدا کی مہر اور جو مسلمان آدمی راہ اللہ میں اونٹنی کے تھنوں میں دودھ اترنے کے وقفے برابر قتال کرے، اس کے لئے جنت واجب ہوجاتی ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح بشواهده دون قوله: "ألف سنة للراكب المستعجل.." وقوله: يعرفه بها الأولون...الشهداء، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، خالد بن دريك لم يدرك أبا الدرداء
حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کے ہمراہ کسی سفر میں تھے اور گرمی کی شدت سے اپنے سر پر اپنا ہاتھ رکھتے جاتے تھے اور اس موقع پر نبی اور حضرت عبداللہ بن رواحہ کے علاوہ ہم میں سے کسی کا روزہ نہ تھا۔
حدثنا وكيع , قال: حدثنا سفيان , عن الاعمش , عن ثابت , او عن ابي ثابت , ان رجلا دخل مسجد دمشق , فقال: اللهم آنس وحشتي , وارحم غربتي , وارزقني جليسا حبيبا صالحا , فسمعه ابو الدرداء , فقال: لئن كنت صادقا , لانا اسعد بما قلت منك , سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول: " فمنهم ظالم لنفسه سورة فاطر آية 32 , قال: الظالم يؤخذ منه في مقامه , فذلك الهم والحزن , ومنهم مقتصد سورة فاطر آية 32 , يحاسب حسابا يسيرا , ومنهم سابق بالخيرات سورة فاطر آية 32 , فذلك الذين يدخلون الجنة بغير حساب" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ , قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , عَنِ الْأَعْمَشِ , عَنِ ثَابِتٍ , أَوْ عَنْ أَبِي ثَابِتٍ , أَنَّ رَجُلًا دَخَلَ مَسْجِدَ دِمَشْقَ , فَقَالَ: اللَّهُمَّ آنِسْ وَحْشَتِي , وَارْحَمْ غُرْبَتِي , وَارْزُقْنِي جَلِيسًا حَبِيبًا صَالِحًا , فَسَمِعَهُ أَبُو الدَّرْدَاءِ , فَقَالَ: لَئِنْ كُنْتَ صَادِقًا , لَأَنَا أَسْعَدُ بِمَا قُلْتَ مِنْكَ , سمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ: " فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِنَفْسِهِ سورة فاطر آية 32 , قَالَ: الظَّالِمُ يُؤْخَذُ مِنْهُ فِي مَقَامِهِ , فَذَلِكَ الْهَمُّ وَالْحَزَنُ , وَمِنْهُمْ مُقْتَصِدٌ سورة فاطر آية 32 , يُحَاسَبُ حِسَابًا يَسِيرًا , وَمِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ سورة فاطر آية 32 , فَذَلِكَ الَّذِينَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ بِغَيْرِ حِسَابٍ" .
ثاقب یا ابوثاقب سے مروی ہے کہ ایک آدمی مسجد دمشق میں داخل ہوا اور یہ دعاء کی کہ اے اللہ! مجھے تنہائی میں کوئی مونس عطاء فرما، میری اجنبیت پر ترس کھا اور مجھے اچھا رفیق عطاء فرما، حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ نے اس کی یہ دعاء سن لی اور فرمایا کہ اگر تم یہ دعاء صدقے دل سے کر رہے ہو تو اس دعاء کا میں تم سے زیادہ سعادت یافتہ ہوں، میں نے نبی کو قرآن کریم کی اس آیت کی تفسیر میں یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ظالم سے اس کے اعمال کا حساب کتاب اسی مقام پر لیا جائے گا اور یہی غم و اندازہ ہوگا یعنی کچھ لوگ درمیانے درجے کے ہوں گے، ان کا آسان حساب لیا جائے گا یہ وہ لوگ ہوں گے جو جنت میں بلا حساب کتاب داخل ہوجائیں گے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، ثابت أو أبو ثابت غير منسوب، وقد اختلف فى إسناده على الأعمش
حدثنا علي بن بحر , قال: حدثنا بقية , قال: حدثنا ثابت بن عجلان , قال: حدثني القاسم مولى بني يزيد , عن ابي الدرداء , ان رجلا مر به وهو يغرس غرسا بدمشق , فقال له: اتفعل هذا وانت صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم؟! فقال: لا تعجل علي , سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول: " من غرس غرسا لم ياكل منه آدمي , ولا خلق من خلق الله عز وجل , إلا كان له صدقة" , قال عبد الله , قال ابي , قال الاشجعي , يعني عن سفيان , عن الاعمش , عن ابي زياد: دخلت مسجد دمشق.حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ بَحْرٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ , قَالَ: حَدَّثَنَا ثَابِتُ بْنُ عَجْلَانَ , قَالَ: حَدَّثَنِي الْقَاسِمُ مَوْلَى بَنِي يَزِيدَ , عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ , أَنَّ رَجُلًا مَرَّ بِهِ وَهُوَ يَغْرِسُ غَرْسًا بِدِمَشْقَ , فَقَالَ لَهُ: أَتَفْعَلُ هَذَا وَأَنْتَ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟! فَقَالَ: لَا تَعْجَلْ عَلَيَّ , سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ: " مَنْ غَرَسَ غَرْسًا لَمْ يَأْكُلْ مِنْهُ آدَمِيٌّ , وَلَا خَلْقٌ مِنْ خَلْقِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ , إِلَّا كَانَ لَهُ صَدَقَةً" , قَالَ عَبْد اللَّهِ , قَالَ أَبِي , قَالَ الْأَشْجَعِيُ , يَعْنِي عَنْ سُفْيَانَ , عَنْ الْأَعْمَشِ , عَنْ أَبِي زِيَادٍ: دَخَلْتُ مَسْجِدَ دِمَشْقَ.
حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ ایک دن دمشق میں ایک پودا لگا رہے تھے کہ ایک آدمی ان کے پاس سے گذرا اور کہنے لگا کہ آپ نبی کے صحابی ہو کر یہ کام کر رہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا جلد بازی سے کام نہ لو، میں نے نبی کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص کوئی پودا لگائے، اسے جو انسان یا اللہ کی کوئی مخلوق کھائے، وہ اس کے لئے صدقہ بن جاتا ہے۔ گذشہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف من أجل بقية ، وهو يدلس تدليس التسوية
حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابودرداء دوسری راتوں کو چھوڑ کر صرف شب جمعہ کو قیام کے لئے اور دوسرے دنوں کو چھوڑ کر صرف جمعہ کے دن کو روزے کے لئے مخصوص نہ کیا کرو۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، محمد بن سيرين لم يسمع من أبى الدرداء، واختلف فيه على محمد بن سيرين
حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں نماز، روزہ اور زکوٰۃ سے افضل درجے کا عمل نہ بتاؤں؟ صحابہ نے عرض کیا کیوں نہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جن لوگوں میں جدائیگی ہوگئی ہو، ان میں صلح کروانا، جبکہ ایسے لوگوں میں پھوٹ اور فساد ڈالنا مونڈنے والی چیز ہے (جو دین کو مونڈ کر رکھ دیتی ہے)۔
حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص کسی آدمی کی کوئی بات سنے اور وہ یہ نہ چاہتا ہو کہ اس بات کو اس کے حوالے سے ذکر کیا جائے تو وہ امانت ہے، اگرچہ وہ سے مخفی رکھنے کے لئے نہ کہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف عبدالله بن الوليد، وعبدالله بن عبيد لم يسمع من أبى الدرداء
حدثنا عبد الرزاق , قال: اخبرنا سفيان , عن الاعمش , عن ذكوان , عن رجل , عن ابي الدرداء , عن النبي صلى الله عليه وسلم في قوله عز وجل لهم البشرى في الحياة الدنيا وفي الآخرة سورة يونس آية 64 , قال: " الرؤيا الصالحة يراها المسلم او ترى له" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , قَالَ: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ , عَنِ الْأَعْمَشِ , عَنْ ذَكْوَانَ , عَنْ رَجُلٍ , عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الآخِرَةِ سورة يونس آية 64 , قَالَ: " الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ يَرَاهَا الْمُسْلِمُ أَوْ تُرَى لَهُ" .
حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت قرآنی لھم البشری فی الحیاۃ الدنیا میں بشری کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس سے مراد اچھے خواب ہیں جو کوئی مسلمان دیکھے یا اس کے حق میں کوئی دوسرا دیکھے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لإبهام الراوي عن أبى الدرداء، وقد اختلف فى إسناده
حدثنا عبد الرزاق , قال: اخبرنا سفيان , عن عطاء بن السائب , عن ابي عبد الرحمن السلمي , قال: كان فينا رجل لم تزل به امه ان يتزوج حتى تزوج , ثم امرته ان يفارقها , فرحل إلى ابي الدرداء بالشام , فقال: إن امي لم تزل بي حتى تزوجت , ثم امرتني ان افارق , قال: ما انا بالذي آمرك ان تفارق , وما انا بالذي آمرك ان تمسك , سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول: " الوالد اوسط ابواب الجنة" , فاضع ذلك الباب , او احفظه , قال: فرجع وقد فارقها.حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , قَالَ: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ , عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ , عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ , قَالَ: كَانَ فِينَا رَجُلٌ لَمْ تَزَلْ بِهِ أُمُّهُ أَنْ يَتَزَوَّجَ حَتَّى تَزَوَّجَ , ثُمَّ أَمَرَتْهُ أَنْ يُفَارِقَهَا , فَرَحَلَ إِلَى أَبِي الدَّرْدَاءِ بِالشَّامِ , فَقَالَ: إِنَّ أُمِّي لَمْ تَزَلْ بِي حَتَّى تَزَوَّجْتُ , ثُمَّ أَمَرَتْنِي أَنْ أُفَارِقَ , قَالَ: مَا أَنَا بِالَّذِي آمُرُكَ أَنْ تُفَارِقَ , وَمَا أَنَا بِالَّذِي آمُرُكَ أَنْ تُمْسِكَ , سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ: " الْوَالِدُ أَوْسَطُ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ" , فَأَضِعْ ذَلِكَ الْبَابَ , أَوْ احْفَظْهُ , قَالَ: فَرَجَعَ وَقَدْ فَارَقَهَا.
ابو عبد الرحمٰن سلمی کہتے ہیں کہ ہم میں ایک آدمی تھا، اس کی والدہ اس کے پیچھے پڑی رہتی تھی کہ شادی کرلو، جب اس نے شادی کرلی تب اس کی ماں نے اسے حکم دیا کہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے (اس نے انکار کردیا) پھر وہ آدمی حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان سے یہ مسئلہ پوچھا تو انہوں نے فرمایا میں تمہیں اسے طلاق دینے کا مشورہ دیتا ہوں اور نہ ہی اپنے پاس رکھنے کا، البتہ میں نے نبی کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ باپ جنت کا درمیانہ دروازہ ہے، اب تمہاری مرضی ہے کہ اس کی حفاظت کرو یا اسے چھوڑ دو، وہ آدمی چلا گیا اور اس نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی۔
حدثنا علي بن عاصم , حدثنا سهيل بن ابي صالح , عن عبد الله بن يزيد السعدي , قال: امرني ناس من قومي ان اسال سعيد بن المسيب , عن سنان, يحددونه ويركزونه في الارض , فيصبح وقد قتل الضبع , اتراه ذكاته؟ قال: فجلست إلى سعيد بن المسيب , فإذا عنده شيخ ابيض الراس واللحية من اهل الشام , فسالته عن ذلك؟ فقال لي: وإنك لتاكل الضبع؟ قال: قلت: ما اكلتها قط , وإن ناسا من قومي لياكلونها , قال: فقال: إن اكلها لا يحل , قال: فقال الشيخ : يا عبد الله , الا احدثك بحديث سمعته من ابي الدرداء , يرويه عن النبي صلى الله عليه وسلم؟ قال: قلت: بلى , قال: فإني سمعت ابا الدرداء , يقول: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن " كل ذي خطفة , وعن كل نهبة , وعن كل مجثمة , وعن كل ذي ناب من السباع" , قال: فقال سعيد بن المسيب: صدق.حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَاصِمٍ , حَدَّثَنَا سُهَيْلُ بْنُ أَبِي صَالِحٍ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ السَّعْدِيِّ , قَالَ: أَمَرَنِي نَاسٌ مِنْ قَوْمِي أَنْ أَسْأَلَ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ , عَنْ سِنَانٍ, يُحَدِّدُونَهُ وَيُرَكِّزُونَهُ فِي الْأَرْضِ , فَيُصْبِحُ وَقَدْ قَتَلَ الضَّبُعَ , أَتُرَاهُ ذَكَاتَهُ؟ قَالَ: فَجَلَسْتُ إِلَى سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ , فَإِذَا عِنْدَهُ شَيْخٌ أَبْيَضُ الرَّأْسِ وَاللِّحْيَةِ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ , فَسَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ؟ فَقَالَ لِي: وَإِنَّكَ لَتَأْكُلُ الضَّبُعَ؟ قَالَ: قُلْتُ: مَا أَكَلْتُهَا قَطُّ , وَإِنَّ نَاسًا مِنْ قَوْمِي لَيَأْكُلُونَهَا , قَالَ: فَقَالَ: إِنَّ أَكْلَهَا لَا يَحِلُّ , قَالَ: فَقَال َ الشَّيْخُ : يَا عَبْدَ اللَّهِ , أَلَا أُحَدِّثُكَ بِحَدِيثٍ سَمِعْتُه ُ مِنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ , يَرْوِيهِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: قُلْتُ: بَلَى , قَالَ: فَإِنِّي سَمِعْتُ أَبَا الدَّرْدَاءِ , يَقُولُ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ " كُلِّ ذِي خِطْفَةٍ , وَعَنْ كُلِّ نُهْبَةٍ , وَعَنْ كُلِّ مُجَثَّمَةٍ , وَعَنْ كُلِّ ذِي نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ" , قَالَ: فَقَالَ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ: صَدَقَ.
عبداللہ بن یزید کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید بن مسًیب سے گوہ کے متعلق پوچھا تو انہوں نے اسے مکروہ قرار دیا، میں نے ان سے کہا کہ آپ کی قوم تو اسے کھاتی ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ انہیں معلوم نہیں ہوگا، اس پر وہاں موجود ایک آدمی نے کہا کہ میں نے حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث سنی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر اس جانور سے منع فرمایا ہے جو لوٹ مار سے حاصل ہو، جسے اچک لیا گیا ہو یا ہر وہ درندہ جو اپنے کچلی والے دانتوں سے شکار کرتا ہو، حضرت سعید بن مسیًب نے اس کی تصدیق فرمائی۔
حكم دارالسلام: مرفوعه صحيح لغيره، وهذا اسناد ضعيف لجهالة عبدالله بن يزيد