حدثنا يحيى بن سعيد ، عن مالك ، قال: حدثني زيد بن اسلم ، عن عطاء بن يسار ، عن ابي رافع , ان النبي صلى الله عليه وسلم استسلف من رجل بكرا، فاتته إبل من إبل الصدقة، فقال:" اعطوه"، فقالوا: لا نجد له إلا رباعيا خيارا؟ قال: " اعطوه، فإن خيار الناس احسنهم قضاء" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ مَالِكٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ , أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَسْلَفَ مِنْ رَجُلٍ بَكْرًا، فَأَتَتْهُ إِبِلٌ مِنْ إِبِلِ الصَّدَقَةِ، فَقَالَ:" أَعْطُوهُ"، فَقَالُوا: لَا نَجِدُ لَهُ إِلَّا رَبَاعِيًا خِيَارًا؟ قَالَ: " أَعْطُوهُ، فَإِنَّ خِيَارَ النَّاسِ أَحْسَنُهُمْ قَضَاءً" .
حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دیہاتی شخص سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اونٹ قرض پر لیا، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنے اونٹ کا تقاضا کرنے کے لئے آیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا: ”اس کے اونٹ جتنی عمر کا ایک اونٹ تلاش کرکے لے آؤ۔“ صحابہ رضی اللہ عنہم نے تلاش کیا لیکن مطلوبہ عمر کا اونٹ نہ مل سکا، ہر اونٹ اس سے بڑا عمر کا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر اسے بڑی عمر کا اونٹ ہی دے دو، تم میں سب سے بہترین وہ ہے جو اداء قرض میں سب سے بہترین ہو۔
حدثنا يحيى ، عن شعبة , حدثنا الحكم ، عن ابن ابي رافع ، عن ابيه , ان النبي صلى الله عليه وسلم بعث رجلا من بني مخزوم على الصدقة، فقال: الا تصحبني تصيب؟ قال: قلت: حتى اذكر ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فذكرت ذلك له، فقال: " إنا آل محمد لا تحل لنا الصدقة، وإن مولى القوم من انفسهم" .حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ شُعْبَةَ , حَدَّثَنِا الْحَكَمُ ، عَنِ ابْنِ أَبِي رَافِعٍ ، عَنْ أَبِيهِ , أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ رَجُلًا مِنْ بَنِي مَخْزُومٍ عَلَى الصَّدَقَةِ، فَقَالَ: أَلَا تَصْحَبُنِي تُصِيبُ؟ قَالَ: قُلْتُ: حَتَّى أَذْكُرَ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ له، فَقَالَ: " إِنَّا آلُ مُحَمَّدٍ لَا تَحِلُّ لَنَا الصَّدَقَةُ، وَإِنَّ مَوْلَى الْقَوْمِ مِنْ أَنْفُسِهِمْ" .
حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ارقم رضی اللہ عنہ یا ان کے صاحبزادے میرے پاس سے گزرے، انہیں زکوٰۃ کی وصولی کے لئے مقرر کیا گیا تھا، انہوں نے مجھے اپنے ساتھ چلنے کی دعوت دی، میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے اس کے متعلق پوچھا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے ابورافع! محمد و آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر زکوٰۃ حرام ہے اور کسی قوم کا آزاد کردہ غلام ان ہی میں شمار ہوتا ہے۔
حدثنا ابن نمير ، قال: اخبرنا شريك , وابو النضر قال: حدثنا شريك ، عن عبد الله بن محمد بن عقيل ، عن علي بن حسين ، عن ابي رافع ، قال: لما ولدت فاطمة حسنا، قالت: الا اعق عن ابني بدم؟ قال: " لا، ولكن احلقي راسه، وتصدقي بوزن شعره من فضة على المساكين والاوفاض" , وكان الاوفاض ناسا من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم محتاجين في المسجد , او في الصفة، وقال ابو النضر:" من الورق على الاوفاض , يعني اهل الصفة , او على المساكين" , ففعلت ذلك، قالت: فلما ولدت حسينا , فعلت مثل ذلك .حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ , وَأَبُو النَّضْرِ قَالَ: حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ ، قَالَ: لَمَّا وَلَدَتْ فَاطِمَةُ حَسَنًا، قَالَتْ: أَلَا أَعُقُّ عَنِ ابْنِي بِدَمٍ؟ قَالَ: " لَا، وَلَكِنْ احْلِقِي رَأْسَهُ، وَتَصَدَّقِي بِوَزْنِ شَعْرِهِ مِنْ فِضَّةٍ عَلَى الْمَسَاكِينِ وَالْأَوْفَاضِ" , وَكَانَ الْأَوْفَاضُ نَاسًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُحْتَاجِينَ فِي الْمَسْجِدِ , أَوْ فِي الصُّفَّةِ، وَقَالَ أَبُو النَّضْرِ:" مِنَ الْوَرِقِ عَلَى الْأَوْفَاضِ , يَعْنِي أَهْلَ الصُّفَّةِ , أَوْ عَلَى الْمَسَاكِينِ" , فَفَعَلْتُ ذَلِكَ، قَالَتْ: فَلَمَّا وَلَدْتُ حُسَيْنًا , فَعَلْتُ مِثْلَ ذَلِكَ .
حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب امام حسین رضی اللہ عنہ کی پیدائش ہوئی تو ان کی والدہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے دو مینڈھوں سے ان کا عقیقہ کرنا چاہا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابھی اس کا عقیقہ نہ کرو بلکہ اس کے سر کے بال منڈوا کر اس کے وزن کے برابر چاندی اللہ کے راستے میں صدقہ کر دو، پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی پیدائش پر بھی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ایسا ہی کیا (اور عقیقہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کیا)۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف عبدالله بن محمد وشريك، لكنه توبع
حدثنا هارون بن معروف ، قال: حدثنا ابن وهب ، قال: اخبرني عمرو , ان بكيرا حدثه , ان الحسن بن علي بن ابي رافع حدثه، عن ابي رافع , انه قال: كنت في بعث مرة، فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اذهب فاتني بميمونة"، فقلت: يا نبي الله , إني في البعث، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الست تحب ما احب؟" , قلت: بلى يا رسول الله، قال:" اذهب، فاتني بها" , فذهبت، فجئته بها .حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرٌو , أَنَّ بُكَيْرًا حَدَّثَهُ , أَنَّ الْحَسَنَ بْنَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي رَافِعٍ حَدَّثَهُ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ , أَنَّهُ قَالَ: كُنْتُ فِي بَعْثٍ مَرَّةً، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اذْهَبْ فَأْتِنِي بِمَيْمُونَةَ"، فَقُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ , إِنِّي فِي الْبَعْثِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلًم:" أَلَسْتَ تُحِبًّ مَا أُحِبُّ؟" , قُلْتُ: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:" اذْهَبْ، فَأْتِنِي بِهَا" , فَذَهَبْتُ، فَجِئْتُهُ بِهَا .
حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں کسی لشکر میں شامل تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”جا کر میرے پاس میمونہ کو بلا کر لاؤ“، میں نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی! میں لشکر میں شامل ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ اپنی بات دہرائی، میں نے اپنا عذر دوبارہ بیان کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم اس چیز کو پسند نہیں کرتے جسے میں پسند کرتا ہوں؟“ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں یا رسول اللہ! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جاؤ اور انہیں میرے پاس بلا کر لاؤ، چنانچہ میں جا کر انہیں بلا لایا۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح إن صح سماع الحسن بن على من جده أبى رافع
حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی پیدائش ہوئی تو میں نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ان کے کان میں اذان دی۔
حدثنا يزيد ، اخبرنا حماد بن سلمة ، عن عبد الرحمن ، عن عمته ، عن ابي رافع , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم طاف على نسائه في ليلة، فاغتسل عند كل امراة منهن غسلا، فقلت: يا رسول الله , لو اغتسلت غسلا واحدا؟ فقال: " هذا اطهر واطيب" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عَمَّتِهِ ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَافَ عَلَى نِسَائِهِ فِي لَيْلَةٍ، فَاغْتَسَلَ عِنْدَ كُلِّ امْرَأَةٍ مِنْهُنَّ غُسْلًا، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , لَوْ اغْتَسَلْتَ غُسْلًا وَاحِدًا؟ فَقَالَ: " هَذَا أَطْهَرُ وَأَطْيَبُ" .
حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی دن میں اپنی تمام ازواج مطہرات کے پاس تشریف لے گئے اور ہر ایک سے فراغت کے بعد غسل فرماتے رہے، کسی نے پوچھا: یا رسول اللہ! اگر آپ ایک ہی مرتبہ غسل فرما لیتے (تو کوئی حرج تھا؟) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ طریقہ زیادہ پاکیزہ عمدہ اور طہارت والا ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، وقد تفرد به عبدالرحمن بن أبى رافع و عمته سلمي، وهما ممن لا يحتمل تفردهما، بل خالفا حديث أنس الصحيح
حدثنا ابو عامر ، قال: حدثنا يعقوب بن محمد بن طحلاء ، حدثنا ابو الرجال ، عن سالم بن عبد الله ، عن ابي رافع ، قال: امرني رسول الله صلى الله عليه وسلم " ان اقتل الكلاب"، فخرجت اقتلها لا ارى كلبا إلا قتلته، فإذا كلب يدور ببيت، فذهبت لاقتله , فناداني إنسان من جوف البيت: يا عبد الله، ما تريد ان تصنع؟ قال: قلت: اريد ان اقتل هذا الكلب، فقالت: إني امراة مضيعة، وإن هذا الكلب يطرد عني السبع، ويؤذنني بالجائي، فات النبي صلى الله عليه وسلم , فاذكر ذلك له، قال: فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم فذكرت ذلك له، فامرني بقتله" .حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ طَحْلَاءَ ، حَدَّثَنَا أَبُو الرِّجَالِ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ ، قَالَ: أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " أَنْ أَقْتُلَ الْكِلَابَ"، فَخَرَجْتُ أَقْتُلُهَا لَا أَرَى كَلْبًا إِلَّا قَتَلْتُهُ، فَإِذَا كَلْبٌ يَدُورُ بِبَيْتٍ، فَذَهَبْتُ لِأَقْتُلَهُ , فَنَادَانِي إِنْسَانٌ مِنْ جَوْفِ الْبَيْتِ: يَا عَبْدَ اللَّهِ، مَا تُرِيدُ أَنْ تَصْنَعَ؟ قَالَ: قُلْتُ: أُرِيدُ أَنْ أَقْتُلَ هَذَا الْكَلْبَ، فَقَالَتْ: إِنِّي امْرَأَةٌ مُضَيَّعَةٌ، وَإِنَّ هَذَا الْكَلْبَ يَطْرُدُ عَنِّي السَّبُعَ، وَيُؤْذِنُنِي بِالْجَائِي، فَأْتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَاذْكُرْ ذَلِكَ لَهُ، قَالَ: فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَأَمَرَنِي بِقَتْلِهِ" .
حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”اے ابورافع! مدینہ میں جتنے کتے پائے جاتے ہیں ان سب کو مار ڈالو“، وہ کہتے ہیں کہ میں نے انصار کی کچھ خواتین کے جنت البقیع میں کچھ درخت دیکھے، ان خواتین کے پاس بھی کتے تھے، وہ کہنے لگیں: اے ابورافع! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے مردوں کو جہاد کے لئے بھیج دیا، اللہ کے بعد اب ہماری حفاظت یہ کتے ہی کرتے ہیں اور واللہ کسی کو ہمارے پاس آنے کی ہمت نہیں ہوتی، حتیٰ کہ ہم میں سے کوئی عورت اٹھتی ہے تو یہ کتے اس کے اور لوگوں کے درمیان آڑ بن جاتے ہیں، اس لئے آپ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کر دو، چنانچہ انہوں نے یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کر دی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابورافع! تم انہیں قتل کر دو، خواتین کی حفاظت اللہ خود کرے گا۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح إن ثبت سماع سالم بن عبدالله من أبى رافع
حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب مؤذن کی آواز سنتے تو وہی جملے دہراتے جو وہ کہہ رہا ہوتا تھا، لیکن جب وہ «حي على الصلوة» اور «حي على الفلاح» پر پہنچتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم «لا حول ولا قوة الا بالله» کہتے تھے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف شريك وعاصم بن عبيد الله، و على بن الحسين لم يدرك أبا رافع
حدثنا ابو عامر ، قال: حدثنا زهير ، عن عبد الله بن محمد ، عن علي بن حسين ، عن ابي رافع مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا ضحى، اشترى كبشين سمينين، اقرنين املحين، فإذا صلى وخطب الناس، اتى باحدهما وهو قائم في مصلاه، فذبحه بنفسه بالمدية، ثم يقول: " اللهم إن هذا عن امتي جميعا ممن شهد لك بالتوحيد، وشهد لي بالبلاغ"، ثم يؤتى بالآخر، فيذبحه بنفسه , ويقول:" هذا عن محمد وآل محمد" , فيطعمهما جميعا المساكين، وياكل هو واهله منهما , فمكثنا سنين، ليس رجل من بني هاشم يضحي، قد كفاه الله المؤنة برسول الله صلى الله عليه وسلم والغرم .حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا ضَحَّى، اشْتَرَى كَبْشَيْنِ سَمِينَيْنِ، أَقْرَنَيْنِ أَمْلَحَيْنِ، فَإِذَا صَلَّى وَخَطَبَ النَّاسَ، أَتَى بِأَحَدِهِمَا وَهُوَ قَائِمٌ فِي مُصَلَّاهُ، فَذَبَحَهُ بِنَفْسِهِ بِالْمُدْيَةِ، ثُمَّ يَقُولُ: " اللَّهُمَّ إِنَّ هَذَا عَنْ أُمَّتِي جَمِيعًا مِمَّنْ شَهِدَ لَكَ بِالتَّوْحِيدِ، وَشَهِدَ لِي بِالْبَلَاغِ"، ثُمَّ يُؤْتَى بِالْآخَرِ، فَيَذْبَحُهُ بِنَفْسِهِ , وَيَقُولُ:" هَذَا عَنْ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ" , فَيُطْعِمُهُمَا جَمِيعًا الْمَسَاكِينَ، وَيَأْكُلُ هُوَ وَأَهْلُهُ مِنْهُمَا , فَمَكَثْنَا سِنِينَ، لَيْسَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ يُضَحِّي، قَدْ كَفَاهُ اللَّهُ الْمُؤْنَةَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْغُرْمَ .
حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو خوبصورت اور خصی مینڈھوں کی قربانی فرمائی اور فرمایا: ”ان میں سے ایک تو ہر اس شخص کی جانب سے ہے جو اللہ کی وحدانیت اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ رسالت کی گواہی دیتا ہو اور دوسرا اپنی اور اپنے اہل خانہ کی طرف سے ہے۔“ راوی کہتے ہیں کہ اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری کفایت فرمائی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، على بن الحسين لم يدرك أبا رافع، ولضعف عبدالله بن محمد، وقد اضطرب فيه
حدثنا ابو معاوية ، قال: حدثنا ابو إسحاق الفزاري ، عن ابن جريج ، قال: حدثني منبوذ رجل من آل ابي رافع، عن الفضل بن عبد الله بن ابي رافع ، عن ابي رافع ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا صلى العصر، ربما ذهب إلى بني عبد الاشهل، فيتحدث حتى ينحدر للمغرب، قال: فقال ابو رافع: فبينا رسول الله صلى الله عليه وسلم مسرعا إلى المغرب , إذ مر بالبقيع، فقال:" اف لك , اف لك" , مرتين , فكبر في ذرعي وتاخرت، وظننت انه يريدني، فقال:" ما لك؟! امش"، قال: قلت: احدثت حدثا يا رسول الله؟ قال:" وما ذاك؟" , قلت: اففت بي، قال: " لا، ولكن هذا قبر فلان، بعثته ساعيا على بني فلان، فغل نمرة، فدرع الآن مثلها من نار" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ الْفَزَارِيُّ ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَنْبُوذٌ رَجُلٌ مِنْ آلِ أَبِي رَافِعٍ، عَنِ الْفَضْلِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّى الْعَصْرَ، رُبَّمَا ذَهَبَ إِلَى بَنِي عَبْدِ الْأَشْهَلِ، فَيَتَحَدَّثُ حَتَّى يَنْحَدِرَ لِلْمَغْرِبِ، قَالَ: فَقَالَ أَبُو رَافِعٍ: فَبَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُسْرِعًا إِلَى الْمَغْرِبِ , إِذْ مَرَّ بِالْبَقِيعِ، فَقَالَ:" أُفٍّ لَكَ , أُفٍّ لَكَ" , مَرَّتَيْنِ , فَكَبُرَ فِي ذَرْعِي وَتَأَخَّرْتُ، وَظَنَنْتُ أَنَّهُ يُرِيدُنِي، فَقَالَ:" مَا لَكَ؟! امْشِ"، قَالَ: قُلْتُ: أَحْدَثْتُ حَدَثًا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" وَمَا ذَاكَ؟" , قُلْتُ: أَفَّفْتَ بِي، قَالَ: " لَا، وَلَكِنَّ هَذَا قَبْرُ فُلَانٍ، بَعَثْتُهُ سَاعِيًا عَلَى بَنِي فُلَانٍ، فَغَلَّ نَمِرَةً، فَدُرِّعَ الْآنَ مِثْلَهَا مِنْ نَارٍ" .
حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نماز عصر پڑھنے کے بعد بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم بنو عبد الاشہل کے یہاں چلے جاتے تھے اور ان کے ساتھ باتیں فرماتے تھے اور مغرب کے وقت وہاں سے واپس آتے تھے، ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم تیزی سے نماز مغرب کے لئے واپس آ رہے تھے کہ جنت البقیع سے گزر ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ فرمایا: ”تم پر افسوس ہے۔“(میں چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھا اس لئے)، میرے ذہن پر اس بات کا بہت بوجھ ہوا اور میں پیچھے ہو گیا کیونکہ میں یہ سمجھ رہا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد میں ہی ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھ کر فرمایا: ”تمہیں کیا ہوا؟ چلتے رہو۔“ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا مجھ سے کوئی گناہ سرزد ہو گیا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا مطلب؟“ میں نے عرض کیا کہ آپ نے مجھ پر (دومرتبہ) «تف» کیا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، دراصل یہ تو میں نے فلاں آدمی کی قبر پر کہا تھا، جسے میں نے زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے فلاں قبیلے میں بھیجا تھا، اس نے خیانت کر کے ایک چادر چھپا لی تھی، اب ویسے ہی آگ کی چادرا سے پہنائی جا رہی ہے۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة حال منبوذ، و فى سماع الفضل بن عبيد الله بن أبى رافع من جده نظر
حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی پیدائش ہوئی تو میں نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ان کے کان میں اذان دی۔
حدثنا خلف بن الوليد ، قال: حدثنا ابو جعفر يعني الرازي ، عن شرحبيل ، عن ابي رافع مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: اهديت له شاة، فجعلها في القدر، فدخل رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: " ما هذا يا ابا رافع؟" , فقال: شاة اهديت لنا يا رسول الله، فطبختها في القدر، فقال:" ناولني الذراع يا ابا رافع"، فناولته الذراع، ثم قال:" ناولني الذراع الآخر" , فناولته الذراع الآخر، ثم قال:" ناولني الذراع الآخر" , فقال: يا رسول الله، إنما للشاة ذراعان، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اما إنك لو سكت، لناولتني ذراعا فذراعا ما سكت"، ثم دعا بماء فمضمض فاه، وغسل اطراف اصابعه، ثم قام فصلى، ثم عاد إليهم، فوجد عندهم لحما باردا، فاكل، ثم دخل المسجد، فصلى، ولم يمس ماء .حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ الْوَلِيدِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ يَعْنِي الرَّازِيَّ ، عَنْ شُرَحْبِيلَ ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: أُهْدِيَتْ لَهُ شَاةٌ، فَجَعَلَهَا فِي الْقِدْرِ، فَدَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " مَا هَذَا يَا أَبَا رَافِعٍ؟" , فَقَالَ: شَاةٌ أُهْدِيَتْ لَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَطَبَخْتُهَا فِي الْقِدْرِ، فَقَالَ:" نَاوِلْنِي الذِّرَاعَ يَا أَبَا رَافِعٍ"، فَنَاوَلْتُهُ الذِّرَاعَ، ثُمَّ قَالَ:" نَاوِلنِي الذِّرَاعَ الْآخَرَ" , فَنَاوَلْتُهُ الذِّرَاعَ الْآخَرَ، ثُمَّ قَالَ:" نَاوِلْنِي الذِّرَاعَ الْآخَرَ" , فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّمَا لِلشَّاةِ ذِرَاعَانِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَمَا إِنَّكَ لَوْ سَكَتَّ، لَنَاوَلْتَنِي ذِرَاعًا فَذِرَاعًا مَا سَكَتَّ"، ثُمَّ دَعَا بِمَاءٍ فَمَضْمَضَ فَاهُ، وَغَسَلَ أَطْرَافَ أَصَابِعِهِ، ثُمَّ قَامَ فَصَلَّى، ثُمَّ عَادَ إِلَيْهِمْ، فَوَجَدَ عِنْدَهُمْ لَحْمًا بَارِدًا، فَأَكَلَ، ثُمَّ دَخَلَ الْمَسْجِدَ، فَصَلَّى، وَلَمْ يَمَسَّ مَاءً .
حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک ہنڈیا میں گوشت پکایا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے اس کی دستی نکال کر دو“، چنانچہ میں نے نکال دی، تھوڑی دیر بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری دستی طلب فرمائی، میں نے وہ بھی دے دی، تھوڑی دیر بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر دستی طلب فرمائی، میں نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی! ایک بکری کی کتنی دستیاں ہوتی ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے، اگر تم خاموش رہتے تو اس ہنڈیا سے اس وقت تک دستیاں نکلتی رہتیں جب تک میں تم سے مانگتا رہتا“، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگوا کر کلی کی، انگلیوں کے پورے دھوئے اور کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے پھر دوبارہ ان کے پاس آئے تو کچھ ٹھنڈا گوشت پڑا ہوا پایا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بھی تناول فرمایا اور مسجد میں داخل ہو کر پانی کو ہاتھ لگائے بغیر نماز پڑھ لی۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره فى قصة مناولة الذراع، وهذا إسناد ضعيف لضعف شرحبيل بن سعد، وأبو جعفر الرازي مختلف فيه، وقد اختلف عنه فى هذا الإسناد
حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی پیدائش ہوئی تو ان کی والدہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے دو مینڈھوں سے ان کا عقیقہ کرنا چاہا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابھی اس کا عقیقہ نہ کرو بلکہ اس کے سر کے بال منڈوا کر اس کے وزن کے برابر چاندی اللہ کے راستے میں صدقہ کر دو، پھر حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی پیدائش پر بھی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ایسا ہی کیا (اور عقیقہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کیا)۔
حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے نکاح بھی غیر محرم ہونے کی صورت میں کیا تھا اور ان کے ساتھ تخلیہ بھی غیر محرم ہونے کی حالت میں کیا تھا اور میں ان دونوں کے درمیان قاصد تھا۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، وقد اختلف على ربيعة بن أبى عبد الرحمن فى وصله وإرساله
حدثنا حسين بن محمد ، قال: حدثنا الفضيل يعني ابن سليمان ، قال: حدثنا محمد بن ابي يحيى ، عن ابي اسماء مولى بني جعفر، عن ابي رافع , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال لعلي بن ابي طالب: " إنه سيكون بينك وبين عائشة امر"، قال: انا يا رسول الله، قال:" نعم" , قال: انا، قال:" نعم"، قال: فانا اشقاهم يا رسول الله؟ قال:" لا، ولكن إذا كان ذلك، فارددها إلى مامنها" .حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْفُضَيْلُ يَعْنِي ابْنَ سُلَيْمَانَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي يَحْيَى ، عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ مَوْلَى بَنِي جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لِعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ: " إِنَّهُ سَيَكُونُ بَيْنَكَ وَبَيْنَ عَائِشَةَ أَمْرٌ"، قَالَ: أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:" نَعَمْ" , قَالَ: أَنَا، قَالَ:" نَعَمْ"، قَالَ: فَأَنَا أَشْقَاهُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" لَا، وَلَكِنْ إِذَا كَانَ ذَلِكَ، فَارْدُدْهَا إِلَى مَأْمَنِهَا" .
حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرما دیا تھا کہ تمہارے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے درمیان کچھ شکر نجی ہو جائے گی، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا میں ایسا کروں گا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں!“ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! پھر تو میں سب سے زیادہ شقی ہوں گا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، البتہ جب ایسا ہو جائے تو تم انہیں ان کی پناہ گاہ میں واپس پہنچا دینا۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، وهذا من منكرات الفضيل بن سليمان، وقد اضطرب فى إسناده، وأبو أسماء انفرد به