حدثنا سفيان بن عيينة , عن ايوب , عن محمد , عن ام عطية : خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم ونحن نغسل ابنته، فقال: " اغسلنها ثلاثا، او خمسا، او اكثر من ذلك إن رايتن ذلك، واجعلن في الآخرة كافورا، او شيئا من كافور، فإذا فرغتن، فآذنني" , فآذناه , فالقى إلينا حقوه , فقال:" اشعرنها إياه" , قال محمد : وحدثتناه حفصة , قالت: فجعلنا راسها ثلاثة قرون.حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ , عَنْ أَيُّوبَ , عَنْ مُحَمَّدٍ , عَنْ أُمِّ عَطِيَّة : خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ نُغَسِّلُ ابْنَتَهُ، فَقَالَ: " اغْسِلْنَهَا ثَلَاثًا، أَوْ خَمْسًا، أَوْ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ إِنْ رَأَيْتُنَّ ذَلِكَ، وَاجْعَلْنَ فِي الْآخِرَةِ كَافُورًا، أَوْ شَيْئًا مِنْ كَافُورٍ، فَإِذَا فَرَغْتُنَّ، فَآذِنَّنِي" , فَآذَنَّاهُ , فَأَلْقَى إِلَيْنَا حَقْوَهُ , فَقَالَ:" أَشْعِرْنَهَا إِيَّاهُ" , قَالَ مُحَمَّدٌ : وَحَدَّثَتْنَاهُ حَفْصَةُ , قَالَتْ: فَجَعَلْنَا رَأْسَهَا ثَلَاثَةَ قُرُونٍ.
حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے مروی کہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو غسل دے رہی تھیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ”اسے تین یا اس سے زیادہ مرتبہ (طاق عدد میں) غسل دو، اگر مناسب سمجھو تو پانی میں بیری کے پتے ملا لو اور سب سے آخر میں اس پر کا فور لگا دینا اور جب ان چیزوں سے فارغ ہو جاؤ تو مجھے بتا دینا“، چنانچہ ہم نے فارغ ہو کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع کر دی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ایک تہبند ہماری طرف پھینک کر فرمایا: ”اس کے جسم پر اسے سب سے پہلے لپیٹو۔“ راوی حدیث محمد کہتے ہیں کہ یہ حدیث ہم سے حفصہ بنت سیرین نے بھی بیان کی ہے، البتہ انہوں نے یہ کہا ہے کہ ہم نے ان کے سر کے بال تین حصوں میں بانٹ دئیے تھے۔
حدثنا ابو معاوية ، قال: حدثنا عاصم الاحول ، عن حفصة ، عن ام عطية ، قالت: لما نزلت هذه الآية: على ان لا يشركن بالله شيئا إلى قوله ولا يعصينك في معروف سورة الممتحنة آية 12، قالت: كان فيه النياحة، قالت: فقلت: يا رسول الله , إلا آل فلان , فإنهم قد كانوا اسعدوني في الجاهلية , فلا بد لي من ان اسعدهم , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إلا آل فلان" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ ، عَنْ حَفْصَةَ ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ ، قَالَتْ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: عَلَى أَنْ لا يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئًا إِلَى قَوْلِهِ وَلا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ سورة الممتحنة آية 12، قَالَتْ: كَانَ فِيهِ النِّيَاحَةُ، قَالَتْ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِلَّا آلَ فُلَانٍ , فَإِنَّهُمْ قَدْ كَانُوا أَسْعَدُونِي فِي الْجَاهِلِيَّةِ , فَلَا بُدَّ لِي مِنْ أَنْ أُسْعِدَهُمْ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِلَّا آلَ فُلَانٍ" .
حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی: «عَلَى أَنْ لا يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئًا . . .» تو اس میں نوحہ بھی شامل تھا، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! فلاں خاندان والوں کو مستثنیٰ کر دیجیے کیونکہ انہوں نے زمانہ جاہلیت میں نوحہ کرنے میں میری مدد کی تھی، لہٰذا میرے لئے ضروری ہے کہ میں بھی ان کی مدد کروں، سو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مستثنیٰ کر دیا۔
حدثنا إسحاق بن يوسف الازرق ، قال: اخبرنا هشام ، عن حفصة , عن ام عطية , قالت: توفيت إحدى بنات النبي صلى الله عليه وسلم , فاتانا رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقال: " اغسلنها بسدر , واغسلنها وترا ثلاثا , او خمسا , او اكثر من ذلك إن رايتن , واجعلن في الآخرة كافورا , او شيئا من كافور , فإذا فرغتن , فآذنني" , قالت: فلما فرغنا , آذناه عليه الصلاة والسلام , فالقى إلينا حقوه , فقال:" اشعرنها إياه" .حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ يُوسُفَ الْأَزْرَقُ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا هِشَامٌ ، عَنْ حَفْصَةَ , عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ , قَالَتْ: تُوُفِّيَتْ إِحْدَى بَنَاتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَأَتَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ: " اغْسِلْنَهَا بِسِدْرٍ , وَاغْسِلْنَهَا وِتْرًا ثَلَاثًا , أَوْ خَمْسًا , أَوْ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ إِنْ رَأَيْتُنَّ , وَاجْعَلْنَ فِي الْآخِرَةِ كَافُورًا , أَوْ شَيْئًا مِنْ كَافُورٍ , فَإِذَا فَرَغْتُنَّ , فَآذِنَّنِي" , قَالَتْ: فَلَمَّا فَرَغْنَا , آذَنَّاهُ عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَامُ , فَأَلْقَى إِلَيْنَا حَقْوَهُ , فَقَالَ:" أَشْعِرْنَهَا إِيَّاهُ" .
حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا تو نبی ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ”اسے تین یا اس سے زیادہ مرتبہ (طاق عدد میں) غسل دو اور سب سے آخر میں اس پر کافور لگا دینا اور جب ان چیزوں سے فارغ ہو جاؤ تو مجھے بتا دینا“، چنانچہ ہم نے فارغ ہو کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع کر دی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ایک تہبند ہماری طرف پھینک کر فرمایا: ”اس کے جسم پر اسے سب سے پہلے لپیٹو۔“
حدثنا حدثنا إسحاق , قال: حدثنا هشام , عن حفصة , عن ام عطية , قالت: " غزوت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم سبع غزوات , اداوي المرضى واقوم على جراحاتهم , فاخلفهم في رحالهم , اصنع لهم الطعام" .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ , قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ , عَنْ حَفْصَةَ , عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ , قَالَتْ: " غَزَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْعَ غَزَوَاتٍ , أُدَاوِي الْمَرْضَى وَأَقُومُ عَلَى جِرَاحَاتِهِمْ , فَأَخْلُفُهُمْ فِي رِحَالِهِمْ , أَصْنَعُ لَهُمْ الطَّعَامَ" .
حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ سات غزوات میں حصہ لیا ہے، میں خیموں میں رہ کر مجاہدین کے لئے کھانا تیار کرتی تھی، مریضوں کی دیکھ بھال کرتی تھی اور زخمیوں کا علاج کرتی تھی۔
حدثنا إسماعيل بن إبراهيم , عن خالد , عن حفصة , عن ام عطية , قالت: بعث إلي رسول الله صلى الله عليه وسلم بشاة من الصدقة , فبعثت إلى عائشة بشيء منها , فلما جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى عائشة , قال: " هل عندكم من شيء؟" , قالت: لا , إلا ان نسيبة بعثت إلينا من الشاة التي بعثتم بها إليها , فقال:" إنها قد بلغت محلها" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ , عَنْ خَالِدٍ , عَنْ حَفْصَةَ , عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ , قَالَتْ: بَعَثَ إِلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَاةٍ مِنَ الصَّدَقَةِ , فَبَعَثْتُ إِلَى عَائِشَةَ بِشَيْءٍ مِنْهَا , فَلَمَّا جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى عَائِشَةَ , قَالَ: " هَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ شَيْءٍ؟" , قَالَتْ: لَا , إِلَّا أَنَّ نُسَيْبَةَ بَعَثَتْ إِلَيْنَا مِنَ الشَّاةِ الَّتِي بَعَثْتُمْ بِهَا إِلَيْهَا , فَقَالَ:" إِنَّهَا قَدْ بَلَغَتْ مَحِلَّهَا" .
حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ کی بکری میں سے کچھ گوشت میرے یہاں بھیج دیا، میں نے اس میں سے تھوڑا سا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے یہاں بھیج دیا، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے یہاں تشریف لائے تو ان سے پوچھا: ”کیا تمہارے پاس کچھ ہے؟“ انہوں نے عرض کیا: نہیں، البتہ نسیبہ نے ہمارے یہاں اسی بکری کا کچھ حصہ بھیجا ہے جو آپ نے ان کے یہاں بھیجی تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ اپنے ٹھکانے پر پہنچ چکی۔“
حدثنا إسماعيل ، عن خالد ، عن حفصة ، عن ام عطية , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال لهم في غسل ابنته: " ابدان بميامنها، ومواضع الوضوء منها" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ حَفْصَةَ ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ لَهُمْ فِي غُسْلِ ابْنَتِهِ: " ابْدَأْنَ بِمَيَامِنِهَا، وَمَوَاضِعِ الْوُضُوءِ مِنْهَا" .
حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی کے غسل کے موقع پر ان سے فرمایا تھا کہ دائیں جانب سے اور اعضاء وضو کی طرف سے غسل کی ابتداء کرنا۔
حدثنا ابن نمير ، قال: حدثنا هشام , عن حفصة بنت سيرين , عن ام عطية , قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا يحد على ميت فوق ثلاث إلا المراة، فإنها تحد على زوجها اربعة اشهر وعشرا، لا تلبس ثوبا مصبوغا إلا ثوب عصب، ولا تكتحل، ولا تطيب، إلا عند ادنى طهرتها نبذة من قسط واظفار" .حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، قالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ , عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ , عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ , قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يُحِدُّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثٍ إِلَّا الْمَرْأَةُ، فَإِنَّهَا تُحِدُّ عَلَى زَوْجِهَا أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا، لَا تَلْبَسُ ثَوْبًا مَصْبُوغًا إِلَّا ثَوْبَ عَصْبٍ، وَلَا تَكْتَحِلُ، وَلَا تَطَّيَّبُ، إِلَّا عِنْدَ أَدْنَى طُهْرَتِهَا نُبْذَةً مِنْ قُسْطٍ وَأَظْفَارٍ" .
حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی عورت اپنے شوہر کے علاوہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ نہ منائے، البتہ شوہر کی میت پر چار مہینے دس دن سوگ منائے اور عصب کے علاوہ کسی رنگ سے رنگے ہوئے کپڑے نہ پہنے، سرمہ نہ لگائے اور خوشبو نہ لگائے الاّ یہ کہ پاکی کے ایام آئیں تو لگا لے، یعنی جب وہ اپنے ایام سے پاک ہو تو تھوڑی سی قسط یا اظفار نامی خوشبو لگا لے۔
حدثنا يزيد بن هارون , قال: اخبرنا هشام , عن حفصة , عن ام عطية , قالت: " كان تعني رسول الله صلى الله عليه وسلم اخذ علينا في البيعة ان لا ننوح" , فما وفت امراة منا غير خمس: ام سليم , وامراة معاذ ابنة ابي سبرة , وام العلاء وامراة اخرى .حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ , قَالَ: أَخْبَرَنَا هِشَامٌ , عَنْ حَفْصَةَ , عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ , قَالَتْ: " كَانَ تَعْنِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَ عَلَيْنَا فِي الْبَيْعَةِ أَنْ لَا نَنُوحَ" , فَمَا وَفَتْ امْرَأَةٌ مِنَّا غَيْرَ خَمْسٍ: أُمُّ سُلَيْمٍ , وَامْرَأَةُ مُعَاذٍ َابْنَةُ أَبِي سَبْرَةَ , وأم العلاء وَامْرَأَةٌ أُخْرَى .
حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے بیعت لیتے وقت جو شرائط لگائی تھیں، ان میں سے ایک شرط یہ بھی تھی کہ تم نوحہ نہیں کرو گی، لیکن پانچ عورتوں کے علاوہ ہم میں سے کسی نے اس وعدے کو وفا نہیں کیا۔
حدثنا يحيى بن سعيد , ويزيد بن هارون , قالا: انا هشام ، عن حفصة ، قالت: حدثتني ام عطية ، قالت: توفيت إحدى بنات النبي صلى الله عليه وسلم، فاتانا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: " اغسلنها بسدر، واغسلنها وترا: ثلاثا او خمسا , او اكثر من ذلك إن رايتن ذلك , واجعلن في الآخرة كافورا , او شيئا من كافور , فإذا فرغتن , فآذنني" , قالت: فلما فرغنا آذناه، فالقى إلينا حقوه، فقال:" اشعرنها إياه" ، قالت ام عطية: وضفرنا راس ابنة النبي صلى الله عليه وسلم ثلاثة قرون , والقينا خلفها قرنيها وناصيتها.حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ , وَيَزِيدُ بْنُ هَارُونَ , قَالَا: أَنَا هِشَامٌ ، عَنْ حَفْصَةَ ، قَالَتْ: حَدَّثَتْنِي أُمُّ عَطِيَّةَ ، قَالَتْ: تُوُفِّيَتْ إِحْدَى بَنَاتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " اغْسِلْنَهَا بِسِدْرٍ، وَاغْسِلْنَهَا وِتْرًا: ثَلَاثًا أَوْ خَمْسًا , أَوْ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ إِنْ رَأَيْتُنَّ ذَلِكَ , وَاجْعَلْنَ فِي الْآخِرَةِ كَافُورًا , أَوْ شَيْئًا مِنْ كَافُورٍ , فَإِذَا فَرَغْتُنَّ , فَآذِنَّنِي" , قَالَتْ: فَلَمَّا فَرَغْنَا آذَنَّاهُ، فَأَلْقَى إِلَيْنَا حَقْوَهُ، فَقَالَ:" أَشْعِرْنَهَا إِيَّاهُ" ، قَالَتْ أُمُّ عَطِيَّةَ: وَضَفَرْنَا رَأْسَ ابْنَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَةَ قُرُونٍ , وَأَلْقَيْنَا خَلْفَهَا قَرْنَيْهَا وَنَاصِيَتَهَا.
حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ”اسے بیری کے پانی سے تین یا اس سے زیادہ مرتبہ (طاق عدد میں) غسل دو اور سب سے آخر میں اس پر کافور لگا دینا اور جب ان چیزوں سے فارغ ہو جاؤ تو مجھے بتا دینا“، چنانچہ ہم نے فارغ ہو کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع کر دی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ایک تہبند ہماری طرف پھینک کر فرمایا: ”اس کے جسم پر اسے سب سے پہلے لپیٹو“، ام عطیہ کہتی ہیں کہ ہم نے ان کے سر کے بالوں کی تیں چوٹیاں بنا لیں اور دونوں کناروں اور پیشانی کے بال پیچھے ڈال دئیے۔
حدثنا عفان , قال: حدثنا عبد الواحد بن زياد , قال: حدثنا عاصم الاحول ، عن حفصة بنت سيرين ، عن ام عطية , قالت: بايعنا النبي صلى الله عليه وسلم , " واخذ علينا فيما اخذ , ان لا ننوح" , فقالت امراة من الانصار: إن آل فلان اسعدوني في الجاهلية , وفيهم ماتم , فلا ابايعك حتى اسعدهم كما اسعدوني، فقال: فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم وافقها على ذلك، فذهبت فاسعدتهم , ثم رجعت , فبايعت النبي صلى الله عليه وسلم , قال: فقالت ام عطية: فما وفت امراة منا غير تلك , وغير ام سليم بنت ملحان.حَدَّثَنَا عَفَّانُ , قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ ، عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ , قَالَتْ: بَايَعْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , " وَأَخَذَ عَلَيْنَا فِيمَا أَخَذَ , أَنْ لَا نَنُوحَ" , فَقَالَتْ امْرَأَةٌ مِنَ الْأَنْصَارِ: إِنَّ آلَ فُلَانٍ أَسْعَدُونِي فِي الْجَاهِلِيَّةِ , وَفِيهِمْ مَأْتَمٌ , فَلَا أُبَايِعُكَ حَتَّى أُسْعِدَهُمْ كَمَا أَسْعَدُونِي، فَقَالَ: فَكأنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَافَقَهَا عَلَى ذَلِكَ، فَذَهَبَتْ فَأَسْعَدَتْهُمْ , ثُمَّ رَجَعَتْ , فَبَايَعَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: فَقَالَتْ أُمُّ عَطِيَّةَ: فَمَا وَفَتْ امْرَأَةٌ مِنَّا غَيْرُ تِلْكَ , وَغَيْرُ أُمِّ سُلَيْمٍ بِنْتِ مِلْحَانَ.
حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی: «عَلَى أَنْ لا يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئًا . . .» تو اس میں نوحہ بھی شامل تھا، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! فلاں خاندان والوں کو مستثنیٰ کر دیجیے کیونکہ انہوں نے زمانہ جاہلیت میں نوحہ کرنے میں میری مدد کی تھی، لہٰذا میرے لئے ضروری ہے کہ میں بھی ان کی مدد کروں، سو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مستثنیٰ کر دیا، وہ گئیں، انہیں پرسہ دیا اور واپس آ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کر لی، وہ کہتی ہیں کہ پھر اس وعدے کو ان کے اور ام سلیم بنت ملحان کے علاوہ کسی نے وفا نہ کیا۔
حدثنا عفان ، قال: حدثنا حماد بن سلمة , قال: اخبرنا هشام , وحبيب , عن محمد بن سيرين ، عن ام عطية , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم " اخذ على النساء فيما اخذ ان لا ينحن" , فقالت امراة: يا رسول الله , إن امراة اسعدتني , افلا اسعدها؟ فقبضت يدها , وقبض رسول الله صلى الله عليه وسلم يده , فلم يبايعها .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ , قَالَ: أَخْبَرَنَا هِشَامٌ , وحَبِيبٌ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " أَخَذَ عَلَى النِّسَاءِ فِيمَا أَخَذَ أَنْ لَا يَنُحْنَ" , فَقَالَتْ امْرَأَةٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّ امْرَأَةً أَسْعَدَتْنِي , أَفَلَا أُسْعِدُهَا؟ فَقَبَضَتْ يَدَهَا , وَقَبَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ , فَلَمْ يُبَايِعْهَا .
حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی: «عَلَى أَنْ لا يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئًا» تو اس میں نوحہ بھی شامل تھا، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! فلاں خاندان والوں کو مستثنیٰ کر دیجیے کیونکہ انہوں نے زمانہ جاہلیت میں نوحہ کرنے میں میری مدد کی تھی، لہٰذا میرے لئے ضروری ہے کہ میں بھی ان کی مدد کروں، اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا اور اس وقت ان سے بیعت نہیں لی۔
حدثنا عبد الصمد , قال: حدثنا إسحاق ابو يعقوب , قال: حدثنا إسماعيل بن عبد الرحمن بن عطية , عن جدته ام عطية , قالت: " لما قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة، جمع نساء الانصار في بيت , ثم ارسل إليهن عمر بن الخطاب , فقام على الباب , فسلم عليهن , فرددن السلام , فقال: انا رسول رسول الله صلى الله عليه وسلم إليكن , فقلن: مرحبا برسول الله صلى الله عليه وسلم ورسوله , فقال: تبايعن على ان لا تشركن بالله شيئا , ولا تسرقن , ولا تزنين , ولا تقتلن اولادكن , ولا تاتين ببهتان تفترينه بين ايديكن وارجلكن , ولا تعصين في معروف؟ فقلن: نعم , فمد عمر يده من خارج الباب , ومددن ايديهن من داخل , ثم قال: اللهم اشهد , وامرنا ان نخرج في العيدين العتق والحيض , ونهينا عن اتباع الجنائز , ولا جمعة علينا , فسالته عن البهتان , وعن قوله: ولا يعصينك في معروف سورة الممتحنة آية 12 , قال: هي النياحة" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ , قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ أَبُو يَعْقُوبَ , قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَطِيَّة , عَنْ جَدَّتِهِ أُمِّ عَطِيَّةَ , قَالَتْ: " لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ، جَمَعَ نِسَاءَ الْأَنْصَارِ فِي بَيْتٍ , ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَيْهِنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ , فَقَامَ عَلَى الْبَابِ , فَسَلَّمَ عَلَيْهِنَّ , فَرَدَدْنَ السَّلَامَ , فَقَالَ: أَنَا رَسُولُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْكُنَّ , فَقُلْنَ: مَرْحَبًا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَسُولِهِ , فَقَالَ: تُبَايِعْنَ عَلَى أَنْ لَا تُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئًا , وَلَا تَسْرِقْنَ , وَلَا تَزْنِينَ , وَلَا تَقْتُلْنَ أَوْلَادَكُنَّ , وَلَا تَأْتِينَ بِبُهْتَانٍ تَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيكُنَّ وَأَرْجُلِكُنَّ , وَلَا تَعْصِينَ فِي مَعْرُوفٍ؟ فَقُلْنَ: نَعَمْ , فَمَدَّ عُمَرُ يَدَهُ مِنْ خَارِجِ الْبَابِ , وَمَدَدْنَ أَيْدِيَهُنَّ مِنْ دَاخِلٍ , ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ اشْهَدْ , وَأَمَرَنَا أَنْ نُخْرِجَ فِي الْعِيدَيْنِ الْعُتَّقَ وَالْحُيَّضَ , وَنُهِينَا عَنِ اتِّبَاعِ الْجَنَائِزِ , وَلَا جُمُعَةَ عَلَيْنَا , فَسَأَلْتُهُ عَنِ الْبُهْتَانِ , وَعَنْ قَوْلِهِ: وَلا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ سورة الممتحنة آية 12 , قَالَ: هِيَ النِّيَاحَةُ" .
حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین و انصار کو ایک گھر میں جمع فرمایا، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ان کی طرف بھیجا، وہ آ کر دروازے پر کھڑے ہوئے اور سلام کیا، خواتین نے جواب دیا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں تمہاری طرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد بن کر آیا ہوں، ہم نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے قاصد کو خوش آمدید، انہوں نے فرمایا: کیا تم اس بات پر بیعت کرتی ہو کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراؤ گی، بدکاری نہیں کرو گی، اپنے بچوں کو جان سے نہیں مارو گی، کوئی بہتان نہیں گھڑو گی اور کسی نیکی کے کام میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی نہیں کرو گی؟ ہم نے اقرار کر لیا اور گھر کے اندر سے ہاتھ بڑھا دئیے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے باہر سے ہاتھ بڑھایا اور کہنے لگے: اے اللہ! تو گواہ رہ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ حکم بھی دیا کہ عیدین میں کنواری اور ایام والی عورتوں کو بھی لے کر نماز کے لئے نکلا کریں اور جنازے کے ساتھ جانے سے ہمیں منع فرمایا اور یہ کہ ہم پر جمعہ فرض نہیں ہے، کسی خاتون نے حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہ سے «وَلا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ» کا مطلب پوچھا: تو انہوں نے فرمایا کہ اس میں ہمیں نوحہ سے منع کیا گیا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح دون ذكر عمر فيه، وهذا إسناد ضعيف لجهالة إسماعيل بن عبدالرحمن