كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم کتاب: فضائل و مناقب 31. باب مَنَاقِبِ الْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ عَلَيْهِمَا السَّلاَمُ باب: حسن و حسین رضی الله عنہما کے مناقب کا بیان
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حسن اور حسین اہل جنت کے جوانوں کے سردار ہیں“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 4134)، و مسند احمد (3/3، 22، 64، 80) (صحیح) (سند میں یزید بن أبی زیاد ضعیف راوی ہیں، لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: الصحیحة رقم 796)»
وضاحت: ۱؎: ”جنت میں جوانوں کے سردار“ اس کے محدثین نے کئی معانی بیان کئے ہیں، (۱) جو لوگ جوانی کی حالت میں وفات پائے (اور جنتی ہیں) ان کے سردار یہ دونوں ہوں گے، اس بیان کے وقت وہ دونوں جوان تھے، شہادت جوانی کے بعد حالت کہولت میں ہوئی، لیکن جوانی کی حالت میں وفات پانے والوں کے سردار بنا دیئے گئے ہیں (۲) جنت میں سبھی لوگ جوانی کی عمر میں کر دیئے جائیں گے، اس لیے مراد یہ ہے کہ انبیاء اور خلفائے راشدین کے سوا دیگر لوگوں کے سردار یہ دونوں ہوں گے (۳) اس زمانہ کے (جب یہ دونوں جوان تھے) ان جوانوں کے یہ سردار ہیں جو مرنے کے بعد جنت میں جائیں گے، واللہ اعلم۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (796)
ہم سے سفیان بن وکیع نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے جریر اور محمد بن فضیل نے یزید کے واسطہ سے اسی جیسی حدیث روایت کی۔
یہ حدیث حسن صحیح ہے، ابن ابی نعم کا نام عبدالرحمٰن بن ابی نعم بجلی کوفی ہے اور ان کی کنیت ابوالحکم ہے۔ تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (796)
اسامہ بن زید رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں ایک رات کسی ضرورت سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے تو آپ ایک ایسی چیز لپیٹے ہوئے تھے جسے میں نہیں جان پا رہا تھا کہ کیا ہے، پھر جب میں اپنی ضرورت سے فارغ ہوا تو میں نے عرض کیا: یہ کیا ہے جس کو آپ لپیٹے ہوئے ہیں؟ تو آپ نے اسے کھولا تو وہ حسن اور حسین رضی الله عنہما تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کولہے سے چپکے ہوئے تھے، پھر آپ نے فرمایا: ”یہ دونوں میرے بیٹے اور میرے نواسے ہیں، اے اللہ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں، تو بھی ان سے محبت کر اور اس سے بھی محبت کر جو ان سے محبت کرے“۔
یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 86) (حسن)»
قال الشيخ الألباني: حسن، المشكاة (6156 / التحقيق الثاني)
عبدالرحمٰن بن ابی نعم سے روایت ہے کہ اہل عراق کے ایک شخص نے ابن عمر رضی الله عنہما سے مچھر کے خون کے بارے میں پوچھا جو کپڑے میں لگ جائے کہ اس کا کیا حکم ہے؟ ۱؎ تو ابن عمر رضی الله عنہما نے کہا: اس شخص کو دیکھو یہ مچھر کے خون کا حکم پوچھ رہا ہے! حالانکہ انہیں لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسہ کو قتل کیا ہے، اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”حسن اور حسین رضی الله عنہما یہ دونوں میری دنیا کے پھول ہیں“۔
۱- یہ حدیث صحیح ہے، ۲- اسے شعبہ اور مہدی بن میمون نے بھی محمد بن ابی یعقوب سے روایت کیا ہے، ۳- ابوہریرہ کے واسطے سے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح کی روایت آئی ہے۔ تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأدب 18 (5994) (تحفة الأشراف: 7300) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: صحیح بخاری کی روایت میں ہے کہ سائل نے حالت احرام میں مچھر مارنے کے فدیہ کے بارے میں سوال کیا تھا، ہو سکتا ہے کہ مؤلف کی روایت میں کسی راوی نے مبہم روایت کر دی ہو، سیاق و سباق کے لحاظ سے صحیح صورت حال مسئلہ وہی ہے جو صحیح بخاری میں ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (6155)، الصحيحة (564)
سلمیٰ کہتی ہیں کہ میں ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کے پاس آئی، وہ رو رہی تھیں، میں نے پوچھا: آپ کیوں رو رہی ہیں؟ وہ بولیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے (یعنی خواب میں) آپ کے سر اور داڑھی پر مٹی تھی، تو میں نے عرض کیا: آپ کو کیا ہوا ہے؟ اللہ کے رسول! تو آپ نے فرمایا: ”میں حسین کا قتل ابھی ابھی دیکھا ہے“۔
یہ حدیث غریب ہے۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 18279) (ضعیف) (سند میں سلمی البکریة ضعیف راوی ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (6157)
انس بن مالک کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ آپ کے اہل بیت میں آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: ”حسن اور حسین“ (رضی الله عنہما)، آپ فاطمہ رضی الله عنہا سے فرماتے: ”میرے دونوں بیٹوں کو بلاؤ، پھر آپ انہیں چومتے اور انہیں اپنے سینہ سے لگاتے“۔
انس کی روایت سے یہ حدیث اس سند سے غریب ہے۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 1706) (ضعیف) (سند میں یوسف بن ابراہیم ضعیف راوی ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (6158)
ابوبکرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر چڑھ کر فرمایا: ”میرا یہ بیٹا سردار ہے، اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ دو بڑے گروہوں میں صلح کرائے گا“ ۱؎۔
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اور «ابني هذا» سے مراد حسن بن علی ہیں رضی الله عنہما۔ تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصلح 9 (2704)، والمناقب 25 (3629)، وفضائل الصحابة 22 (3746)، والفتن 20 (7109)، سنن ابی داود/ السنة 13 (4662)، سنن النسائی/الجمعة 27 (1411) (تحفة الأشراف: 11658)، و مسند احمد (5/37، 44، 49، 51) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی میرا یہ نواسہ مسلمانوں کے دو گروہوں کے درمیان صلح کا سبب بنے گا، چنانچہ خلافت کے مسئلہ کو لے کر جب مسلمانوں کے دو گروہ ہو گئے، ایک گروہ معاویہ رضی الله عنہ کے ساتھ اور دوسرا حسن رضی الله عنہ کے ساتھ تھا، تو حسن رضی الله عنہ نے خلافت سے دستبرداری کا اعلان کر کے مسلمانوں کو قتل و خونریزی سے بچا کر اس امت پر بڑا احسان کیا اور یہ ان کا بہت بڑا کارنامہ ہے «جزاہ اللہ عن المسلمین خیر الجزاء» ۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، الروض النضير (923)، الإرواء (1597)
بریدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں خطبہ دے رہے تھے کہ اچانک حسن اور حسین رضی الله عنہما دونوں سرخ قمیص پہنے ہوئے گرتے پڑتے چلے آ رہے تھے، آپ نے منبر سے اتر کر ان دونوں کو اٹھا لیا، اور ان کو لا کر اپنے سامنے بٹھا لیا، پھر فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے «إنما أموالكم وأولادكم فتنة» ۱؎ ”تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہارے لیے آزمائش ہیں، میں نے ان دونوں کو گرتے پڑتے آتے ہوئے دیکھا تو صبر نہیں کر سکا، یہاں تک کہ اپنی بات روک کر میں نے انہیں اٹھا لیا“ ۲؎۔
یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف حسین بن واقد کی روایت سے جانتے ہیں۔ تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 233 (1109)، سنن النسائی/الجمعة 30 (1414)، والعیدین 27 (1586)، سنن ابن ماجہ/اللباس 20 (3600) (تحفة الأشراف: 1958)، و مسند احمد (5/354) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: التغابن: ۱۵۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3600)
یعلیٰ بن مرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں ۱؎ اللہ اس شخص سے محبت کرتا ہے جو حسین سے محبت کرتا ہے، حسین قبائل میں سے ایک قبیلہ ہیں“ ۲؎۔
۲- اسے عبداللہ بن عثمان بن خثیم سے متعدد لوگوں نے روایت کیا ہے۔ تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/المقدمة 11 (144) (تحفة الأشراف: 11850)، و مسند احمد (4/172) (حسن) (تراجع الالبانی 375) الصحیحہ 1227)»
وضاحت: ۱؎: بقول قاضی عیاض: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم من جانب اللہ مطلع کر دیئے گئے تھے کہ کچھ لوگ حسین سے بغض رکھیں گے اس لیے آپ نے پیشگی بیان کر دیا کہ ”حسین سے محبت مجھ سے محبت ہے، اور حسین سے دشمنی مجھ سے دشمنی ہے کیونکہ ہم دونوں ایک ہی ہیں“۔ قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (144)
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں میں حسن بن علی رضی الله عنہما سے زیادہ اللہ کے رسول کے مشابہ کوئی نہیں تھا۔
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/فضائل الصحابة 22 (3752) (تحفة الأشراف: 1539) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوجحیفہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور حسن بن علی رضی الله عنہما ان سے مشابہت رکھتے تھے۔
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوبکر صدیق، ابن عباس اور عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 2826 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح وقد مضى (2828 و 2829) // هذا رقم الدعاس وهو عندنا برقم (2266 / 2995، 2996) //
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں عبیداللہ بن زیاد کے پاس تھا کہ حسین رضی الله عنہ کا سر لایا گیا تو وہ ان کی ناک میں اپنی چھڑی مار کر کہنے لگا میں نے اس جیسا خوبصورت کسی کو نہیں دیکھا کیوں ان کا ذکر حسن سے کیا جاتا ہے (جب کہ وہ حسین نہیں ہے) ۱؎۔ تو میں نے کہا: سنو یہ اہل بیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ مشابہ تھے ۲؎۔
یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 1729) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ جملہ اس نے حسین رضی الله عنہ کے حسن اور آپ کی خوبصورتی سے متعلق طعن و استہزاء کے طور پر کہا تھا، اسی لیے انس بن مالک نے اسے جواب دیا۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (6170 / التحقيق الثاني)
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ حسن رضی الله عنہ سینہ سے سر تک کے حصہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ مشابہ تھے، اور حسین رضی الله عنہ اس حصہ میں جو اس سے نیچے کا ہے سب سے زیادہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہ تھے۔
یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10302) (ضعیف) (سند میں ہانی بن ہانی مجہول الحال راوی ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (6161)
عمارہ بن عمیر کہتے ہیں کہ جب عبیداللہ بن زیاد اور اس کے ساتھیوں کے سر لائے گئے ۱؎ اور کوفہ کی ایک مسجد میں انہیں ترتیب سے رکھ دیا گیا اور میں وہاں پہنچا تو لوگ یہ کہہ رہے تھے: آیا آیا، تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک سانپ سروں کے بیچ سے ہو کر آیا اور عبیداللہ بن زیاد کے دونوں نتھنوں میں داخل ہو گیا اور تھوڑی دیر اس میں رہا پھر نکل کر چلا گیا، یہاں تک کہ غائب ہو گیا، پھر لوگ کہنے لگے: آیا آیا، اس طرح دو یا تین بار ہوا ۱؎۔
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 19140) (صحیح الإسناد)»
وضاحت: ۱؎: حسن اور حسین رضی الله عنہما کے مناقب میں اس حدیث کو لا کر امام ترمذی نواسہ رسول کے اس دشمن کا حشر بتانا چاہتے ہیں جس نے حسین رضی الله عنہ کے ساتھ گستاخی کرتے ہوئے اپنی چھڑی سے آپ کی ناک، آنکھ اور منہ پر مارا تھا کہ اللہ نے نواسہ رسول کے اس دشمن کے ساتھ کیسا سلوک کیا اسے اہل دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔ (عبداللہ بن زیاد کو مختار ثقفی کے فرستادہ ابراہیم بن اشتر نے سن چھیاسٹھ میں مقام جازر میں جو موصل سے پانچ فرسخ پر ہے قتل کیا تھا)۔ قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
حذیفہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے میری والدہ نے پوچھا: تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حال ہی میں کب گئے تھے؟ میں نے کہا: اتنے اتنے دنوں سے میں ان کے پاس نہیں جا سکا ہوں، تو وہ مجھ پر خفا ہوئیں، میں نے ان سے کہا: اب مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جانے دیجئیے میں آپ کے ساتھ نماز مغرب پڑھوں گا اور آپ سے میں اپنے اور آپ کے لیے دعا مغفرت کی درخواست کروں گا، چنانچہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ کے ساتھ مغرب پڑھی پھر آپ (نوافل) پڑھتے رہے یہاں تک کہ آپ نے عشاء پڑھی، پھر آپ لوٹے تو میں بھی آپ کے ساتھ پیچھے پیچھے چلا، آپ نے میری آواز سنی تو فرمایا: ”کون ہو؟ حذیفہ؟“ میں نے عرض کیا: جی ہاں، حذیفہ ہوں، آپ نے فرمایا: «ما حاجتك غفر الله لك ولأمك» ”کیا بات ہے؟ بخشے اللہ تمہیں اور تمہاری ماں کو“ (پھر) آپ نے فرمایا: ”یہ ایک فرشتہ تھا جو اس رات سے پہلے زمین پر کبھی نہیں اترا تھا، اس نے اپنے رب سے مجھے سلام کرنے اور یہ بشارت دینے کی اجازت مانگی کہ فاطمہ جنتی عورتوں کی سردار ہیں اور حسن و حسین رضی الله عنہما اہل جنت کے جوانوں (یعنی جو دنیا میں جوان تھے ان) کے سردار ہیں“ ۱؎۔
یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسرائیل کی روایت سے جانتے ہیں۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفة الأشراف: 3323) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: خصوصی فرشتہ کے ذریعہ مذکورہ خوشخبری ان تینوں ماں بیٹوں کی خصوصی فضیلت پر دلالت کرتی ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، التعليق الرغيب (205 - 206)، المشكاة (6162)
براء رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن اور حسین رضی الله عنہما کو دیکھا تو فرمایا: «اللهم إني أحبهما فأحبهما» ”اے اللہ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں، تو بھی ان دونوں سے محبت فرما“۔
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/فضائل الصحابة 22 (3749)، صحیح مسلم/فضائل الصحابة 8 (2422) (تحفة الأشراف: 1793) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (2789)
براء بن عازب رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ اپنے کندھے پر حسن بن علی رضی الله عنہما کو بٹھائے ہوئے تھے اور فرما رہے تھے: «اللهم إني أحبه فأحبه» ”اے اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت فرما“۔
یہ حدیث حسن صحیح ہے، اور یہ فضیل بن مرزوق کی (مذکورہ) روایت سے زیادہ صحیح ہے ۱؎۔ تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی جس روایت میں صرف حسن کو کندھے پر اٹھائے ہونے کا تذکرہ ہے وہ اس روایت سے زیادہ صحیح ہے جس میں ہے کہ حسن و حسین رضی الله عنہما دونوں کو اٹھائے ہوئے تھے، حالانکہ یہ بات بھی کہی جا سکتی ہے کہ یہ دو الگ الگ واقعے ہیں، اور دونوں کے لیے یہ بات کہے جانے میں کوئی تضاد بھی نہیں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (2789)
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حسن بن علی رضی الله عنہما کو اپنے کندھے پر اٹھائے ہوئے تھے تو ایک شخص نے کہا: بیٹے! کیا ہی اچھی سواری ہے جس پر تو سوار ہے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اور سوار بھی کیا ہی اچھا ہے۔“
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ۲- زمعہ بن صالح کی بعض محدثین نے ان کے حفظ کے تعلق سے تضعیف کی ہے۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 6096) (ضعیف) (سند میں زمعہ بن صالح ضعیف راوی ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (6163)
علی بن ابی طالب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر نبی کو اللہ نے سات نقیب عنایت فرمائے ہیں، اور مجھے چودہ“، ہم نے عرض کیا: وہ کون لوگ ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں، میرے دونوں نواسے، جعفر، حمزہ، ابوبکر، عمر، مصعب بن عمیر، بلال، سلمان، مقداد، حذیفہ، عمار اور عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہم۔“
۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ۲- یہ حدیث علی رضی الله عنہ سے موقوفاً بھی آئی ہے۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10280) (ضعیف) (سند میں مسیب بن نجبہ لین الحدیث اور کثیر النواء ضعیف اور ابو ادریس المرہبی شیعی ہیں، اور حدیث میں تشیع واضح ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (6246 / التحقيق الثاني) // ضعيف الجامع الصغير (1912) //
|