سنن ترمذي
كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: فضائل و مناقب
31. باب مَنَاقِبِ الْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ عَلَيْهِمَا السَّلاَمُ
باب: حسن و حسین رضی الله عنہما کے مناقب کا بیان
حدیث نمبر: 3775
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ رَاشِدٍ، عَنْ يَعْلَى بْنِ مُرَّةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " حُسَيْنٌ مِنِّي وَأَنَا مِنْ حُسَيْنٍ , أَحَبَّ اللَّهُ مَنْ أَحَبَّ حُسَيْنًا، حُسَيْنٌ سِبْطٌ مِنَ الْأَسْبَاطِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ، وَإِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ، وَقَدْ رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ.
یعلیٰ بن مرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں
۱؎ اللہ اس شخص سے محبت کرتا ہے جو حسین سے محبت کرتا ہے، حسین قبائل میں سے ایک قبیلہ ہیں
“ ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں
۱- یہ حدیث حسن ہے ہم اسے صرف عبداللہ بن عثمان بن خثیم کی روایت سے جانتے ہیں،
۲- اسے عبداللہ بن عثمان بن خثیم سے متعدد لوگوں نے روایت کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/المقدمة 11 (144) (تحفة الأشراف: 11850)، و مسند احمد (4/172) (حسن) (تراجع الالبانی 375) الصحیحہ 1227)»
وضاحت:
۱؎: بقول قاضی عیاض: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم من جانب اللہ مطلع کر دیئے گئے تھے کہ کچھ لوگ حسین سے بغض رکھیں گے اس لیے آپ نے پیشگی بیان کر دیا کہ ”حسین سے محبت مجھ سے محبت ہے، اور حسین سے دشمنی مجھ سے دشمنی ہے کیونکہ ہم دونوں ایک ہی ہیں“۔
۲؎: یعنی: حسین رضی الله عنہ کی بہت ہی زیادہ اولاد ہو گی، یعنی ان کی نسل خوب پھیلے گی کہ قبائل بن جائیں گے، سو ایسا ہی ہوا۔قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (144)
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 3775 کے فوائد و مسائل
الشيخ غلام مصطفٰے ظهير امن پوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ترمذي 3775
تخریج الحدیث:
[مسند الإمام أحمد:172/4، الأدب المفرد للبخاري:364، سنن الترمذي: 3775، وقال: حسن، سنن ابن ماجة:144، المعجم الكبير للطبراني: 274/22، ح: 702، المستدرك للحاكم: 194/3،ح: 4820، وسنده حسن]
تبصرہ:
↰اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ [6971] نے ”صحیح“ اور امام حاکم رحمہ اللہ نے ”صحیح الاسناد“ کہا ہے۔
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی اسے ”صحیح“ قرار دیا ہے۔
❀ ایک روایت میں «حسين مني، وأنا من حسين» کے الفاظ بھی ہیں۔
ماہنامہ السنہ جہلم، شمارہ 61-66، حدیث/صفحہ نمبر: 195
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3775
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
بقول قاضی عیاض: اللہ کے رسول ﷺ من جانب اللہ مطلع کر دیئے گئے تھے کہ کچھ لوگ حسین ؓ سے بغض رکھیں گے اس لیے آپﷺ نے پیشگی بیان کر دیا کہ ”حسین ؓ سے محبت مجھ سے محبت ہے،
اورحسین ؓ سے دشمنی مجھ سے دشمنی ہے کیونکہ ہم دونوں ایک ہی ہیں۔
2؎:
یعنی: حسین ؓ کی بہت ہی زیادہ اولاد ہوگی،
یعنی ان کی نسل خوب پھیلے گی کہ قبائل بن جائیں گے،
سو ایسا ہی ہوا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3775
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث144
´علی رضی اللہ عنہ کے بیٹوں حسن و حسین رضی اللہ عنہما کے مناقب و فضائل۔`
یعلیٰ بن مرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھانے کی ایک دعوت میں نکلے، دیکھا تو حسین رضی اللہ عنہ) گلی میں کھیل رہے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں سے آگے نکل گئے، اور اپنے دونوں ہاتھ پھیلا لیے، حسین رضی اللہ عنہ بچے تھے، ادھر ادھر بھاگنے لگے، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کو ہنسانے لگے، یہاں تک کہ ان کو پکڑ لیا، اور اپنا ایک ہاتھ ان کی ٹھوڑی کے نیچے اور دوسرا سر پر رکھ کر بوسہ لیا، اور فرمایا: ”حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں، اللہ اس سے محبت رکھے جو ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 144]
اردو حاشہ:
(1)
اگر کوئی کھانے کی دعوت دے تو قبول کرنا مسنون ہے۔
(2)
چھوٹے بچے گلی میں کھیلیں تو جائز ہے۔
(3)
اظہار محبت کے لیے بچے کو تھامنا، چہرے کو بوسا دینا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔
(4)
سبط کے معنی نواسہ ہیں مگر اس کا اطلاق قبیلے پر بھی ہوتا ہے۔
اس سے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی عظمت ظاہر کرنا مقصود ہے کہ وہ اکیلے ہی ایک قبیلے کی سی شان کے حامل ہیں۔
جیسا کہ ارشاد الہی ہے کہ ”حضرت ابراہیم علیہ السلام اکیلے ہی ایک امت کی سی شان رکھتے ہیں۔“ (النحل: 120)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 144